1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی جماعتوں کے منشور: وعدے اور زمینی حقائق

عبدالستار، اسلام آباد
25 جنوری 2024

آٹھ فروری کے پارلیمانی انتخابات سے قبل پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور کے چیدہ چیدہ نکات کا اعلان کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا جو وعدے یا دعوے کیے جا رہے ہیں، کیا ان پر عمل درآمد ممکن بھی ہو سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/4bdTM
Pakistan Lahore | Plakat vor der Rückkehr von Ex-Premierminister Nawaz Sharif
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے منشور کے 10 اہم نکات، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے 25  جبکہ جماعت اسلامی نے 58  سے زائد صفحات پر مشتمل اپنا پارٹی منشور پیش کیا ہے۔ کئی حلقے ان منشوروں کی اہمیت، ان کے اثر اور ان کی عملیت پسندی پر بحث کر رہے ہیں۔

پی پی پی نے تنخواہوں کو ڈبل کرنے، گرین انرجی کے لیے کام کرنے، تین سو یونٹس مفت بجلی فراہم کرنے اور ہر بچے کے لیے تعلیم کی رسائی کو ممکن بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ مفت نظام صحت قائم، 30 لاکھ گھروں کی تعمیر، مزدور، کسان اور نوجوان کے لیے بے نظیر کارڈ اور  بھوک مٹاؤ پروگرام کا وعدہ کیا گیا ہے۔

 ایم کیو ایم کے 25 نکاتی پروگرام میں ضلعی خود مختاری، زرمبادلہ کو 100 ارب ڈالر تک لے جانے، انکم جنریشن پروگرام، تعلیم اور صحت کی ایمرجنسی کا نفاذ، غذائی قلت کے خلاف جدوجہد، نئے شہروں کا قیام، کراچی میں سرمایہ کاری کا فروغ، جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ اور کمیونٹی پولیسنگ جیسے اقدامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نون کے ایک رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی پارٹی کچھ دنوں میں منشور جاری کر دے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''منشور میں معیشت کی بحالی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ایکسپورٹ کو بڑھانا، نجکاری کو ترجیحی بنیادوں پہ تکمیل تک پہنچانا، خسارے کو کم کرنا اور اس کے علاوہ تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، سڑکوں کا نیٹ ورک اور آئین کی بالادستی سمیت کئی اہم نکات شامل ہیں۔‘‘

نظریہ کہاں بھلا؟ بس اقتدار میں آنے کی کوشش ہے

انتخابات نئے مگر وعدے اور منشور پرانے

پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما الطاف بشارت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارٹی نے 10 نکات جاری کر دیے گئے ہیں کیونکہ منشور ابھی پرنٹنگ کے مراحل میں ہے۔‘‘

الطاف بشارت کے مطابق منشور کے نکات کا اعلان چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا ہے جب کہ امیدواروں کو ٹکٹس پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے دیے ہیں۔ تاہم ان جماعتوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔‘‘

نواز شریف کی واپسی، پاکستان کے لیے خوشحالی کا ایک نیا دور؟

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے نومبر میں اپنے منشور کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اس میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا، سودی نظام کا خاتمہ، خواتین کے لیے تعلیم وروزگار اور دیگر مواقع، کرپشن کا اور اشرافیہ کلچر کا خاتمہ، عام آدمی کے مسائل کا حل وغیرہ وغیرہ شامل ہے۔‘‘

منشور کی اہمیت

سیاسی جماعتیں اپنے منشور کو بہت اہم گردانتی ہیں اور اس کو پالیسی سازی کے لیے رہنما دستاویز قرار دیتی ہیں لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں منشور کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔

 کراچی یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے سیاسی جماعت کے کارکنان تو دور کی بات سیاسی جماعت کے کئی اراکین پارلیمنٹ بھی اپنے منشور کو نہیں پڑھتے۔

ڈاکٹر جعفر احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عموما سیاسی جماعتوں میں کچھ دانشور لوگ ہوتے ہیں جو بڑی جاں فشانی سے منشور لکھتے ہیں جیسے پیپلز پارٹی میں تاج حیدر یا مسلم لیگ نون میں سینیٹر عرفان صدیقی لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں کوئی پڑھتا نہیں ہے۔‘‘

کیا جماعتوں کے منشور میں کوئی فرق ہوتا ہے؟

ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق سیاسی جماعتوں کے منشور میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا، خصوصا معاشی پالیسیوں میں، ''نجکاری، ڈی ریگولیشن اور آزاد تجارت کی سارے بات کرتے ہیں۔‘‘

 اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین کا کہنا ہے کہ معاشی معاملات میں تمام سیاسی پالیسی کا نقطہ نظر ایک ہوتا ہے اور یہی وہ پالیسی ہوتی ہے جو سب سے زیادہ عوام کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ' یہاں تک کہ جماعت اسلامی بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ اس کی کچھ حصوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔‘‘

عامر حسین کے مطابق تاہم پیپلز پارٹی اپنے منشور میں اقلیت یا دوسرے گروپوں کو تھوڑی سی زیادہ ترجیح دیتی ہے، ''اس کے علاوہ جنسی امتیاز اور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے بھی نون لیگ کے مقابلے میں ان کی پوزیشن تھوڑی زیادہ واضح ہوتی ہے۔‘‘

دعوے اور عملیت پسندی

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں عموما بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کرنا مشکل ہوتا ہے جیسا کہ نون لیگ کے رہنما حمزہ شہباز نے 300 یونٹ فری بجلی دینے کی بات کی ہے اور اسی طرح کی باتیں بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے بھی کی گئی ہیں۔

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ تا سیاسی نااہلی، عمران خان کا سیاسی سفر

عامر حسین کا خیال ہے کہ پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر ان پر عمل درآمد اسان نہیں ہے، ''نون لیگ چاہتی ہے کہ نجکاری پر فوری طور پر عمل کیا جائے، جس کو ٹریڈ یونینز کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بالکل اسی طرح یہ مالی خسارہ بھی کم نہیں کر سکتے کیونکہ قرضوں کی ادائیگی، دفاعی بجٹ اور آئی پی پی کی ادائیگی تمام حکومتوں کے لیے درد سر ہیں اور یہ مستقبل کی حکومت کے لیے بھی درد سر رہیں گے۔‘‘

پشاور میں سیاسی اختلاف پر باپ نے بیٹے کو مار ڈالا، پولیس

خیبر پختونخوا: الیکشن کمیشن ترمیم کے بعد جنرل نشستوں کے 59 حلقوں پرخواتین امیدوار

عامر حسین کا کہنا ہے بالکل اسی طرح ایکسپورٹ کو بڑھانا ممکن نہیں ہے، ’’شرح سود میں اضافہ، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور درآمدات کی لا محدودیت آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے۔ ان تمام اقدامات سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے تو ایسے میں ایکسپورٹ کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟

کیا منشور کے ان نکات پر پالیسی پہ بھی کوئی اثر ہوتا ہے؟

ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ منشور کیونکہ پڑھا ہی نہیں جاتا تو اس کا اثر کیسے ممکن ہے، '' جو چیز ووٹر پر اثر انداز ہوتی ہے وہ غالبا بیانیہ ہے یا کچھ نعرے ہیں جیسا پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا، مکان اور عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ یا ان کا یہ بیانیہ کہ دونوں سیاسی جماعتیں چور ہیں لیکن باقی معاملات میں منشور کا ووٹر پہ کوئی اثر نہیں ہوتا۔‘‘

عملدرآمد میں مشکلات

عامر حسین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور پر عمل درآمد کرانے میں مشکلات ہوں گی، ''ایم کیو ایم نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی نہیں کر سکتی کیونکہ اس کی سخت مخالفت پیپلز پارٹی کرے گی۔‘‘

عامر نے مزید کہا، ’’پیپلز پارٹی منتقل شدہ وفاقی وزارتوں کا بجٹ ختم کرنا چاہتی ہے جس کی مخالفت طاقتور حلقوں کی طرف سے ہو گی جبکہ مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے دفاعی بجٹ کو کم کرنا پڑے گا یا آئی پی پی سے معاہدے کی شرائط دوبارہ طے کرنے ہوں گی، جو نون لیگ کے بس کی بات نہیں۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں