خیبر پختونخوا کی جنرل نشستوں کے 59 حلقوں پرخواتین امیدوار
20 جنوری 2024پاکستان میں الیکشن کمیشن کی طرف سے قوانین میں حالیہ ترامیم کے بعد سیاسی جماعتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے ساتھ ساتھ جنرل نشستوں پر بھی پانچ فیصد خواتین امیدواروں کے لیے ٹکٹ کا اجراء لازمی قرار دیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا ریٹرننگ افسران کی جانب سے 115 صوبائی اور 45 قومی نشستوں کے امیدواروں کی حتمی فہرست الیکشن کمیشن کو ارسال کردی گئی ہے ،اس فہرست کے تحت فارم 33 کے مطابق پہلی بار عام انتخابات میں اتنی بڑی تعداد میں خواتین انتخابی میدان میں اتریں گی۔
پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے خیبر پختونخوا سے مختلف سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر جنرل نشستوں پر 59 خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں ۔ صوبے کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو عملی سیاست کا حصہ بنایا جارہا ہے۔
خیبرپختونخوا میں کون سی خواتین کس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گی ؟
آٹھ فروری کے مجوزہ عام انتخابات میں خیبر پختونخوا سے جنرل نشستوں پر کھڑی ہونے والی خواتین امیدوار ووٹ کے ذریعے جیت کر عملی سیاست کا حصہ بننے کے لیے پرعزم ہیں ۔ کے پی سے اس بار پاکستان پیپلز پارٹی نے مانسہرہ سے ساجدہ تبسم ،صوابی سے غزالہ خان، مردان سے انیلا شہزاد ، ہری پور سے شائستہ رضا، بونیر سے ڈاکٹر سویرا پرکاش سمیت قومی اسمبلی کے لیے 4 اور صوبائی اسمبلی کے لیے 6 خواتین کو نامزد کیا ہے۔
ان میں ڈاکٹرسویرا پرکاش جو ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہیں انتخابی مہم میں عوامی اور سیاسی حلقوں کی توجہ سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس علاقے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو مذہبی جماعتیں ہیانتخابات میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ تاہم مسلمان برادری اور ان کے حلقے کے علاؤہ جماعت اسلامی کی جانب سے بھی بونیر ،پی کے 25 بطورامیدوار برائے جنرل نشست ان کا خیر مقدم کیا گیا ہے ۔ خواتین کے لیے مختص نشستوں اور جنرل سیٹس پر انتخابات کے حوالے سے خواتین سیاستدانوں کی رائے کی اگر بات کی جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیئر رکن نگہت اورکزئی کا کہنا ہے، ’’خواتین کو صرف صنف کی بنیاد پر ہی پیچھے نہیں دھکیلا جاتا بلکہ ان کو مخصوص نشست پر آنے کے طعنے دے کر آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا لیکن اس کی ذمہ داری بھی خواتین پر عائد ہوتی ہے ۔ وہ اپنے حق کے لیے بات نہیں کریں گی تو کسی اور کے حق کے لیے کیا بات کریں گی۔ یہ بھی سچ ہے کہ بہت سی خواتین ایسی ہیں جو اقربا پروری کی بنیاد پر آئی ہیں اور سیاست سے نابلد ہوتی ہیں۔ وہ سیاسی امور میں دلچسپی بھی نہیں لیتی ہیں۔ ایسی خواتین کی وجہ سے سنجیدہ سیاستدان خواتین کا نام بھی خراب ہوتا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن میں براہ راست حصہ لینے سے ہی سیاست میں خواتین کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی
ماضی میں خیبرپختونخوا کی ماضی میں بااثر رہنے والی سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے نامزد 5 خواتین صوبائی نشست کے لیے قسمت آزمائی کریں گی جبکہ ایک خاتون کو چترال سے قومی نشست سے نمائندگی دی گئی ہے ۔ پشاور کے سب سے بڑے شہری حلقے پی کے 83 سے جنرل نشست پر کھڑی ہونے والی سابق رکن صوبائی اسمبلی ثمر ہارون بلورنے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر آنا آسان ہوتا ہے کیونکہ انتخابات میں پہلے ٹکٹ حاصل کرنا اس کے بعد انتخابی مہم چلانا، مقابلہ کرنا ، ووٹس حاصل کرنا خاص طور پر خیبر پختونخوا جیسے قدامت پسند معاشرے میں اتنا آسان کام نہیں ہے جہاں خواتین کو لیڈر شپ پوزیشن پر دیکھنا ابھی تک قابل قبول نہیں ہے۔ مختص سیٹوں پر اسمبلی میں آنے والی خواتین اور جنرل سیٹس پر آنے والی خواتین کے ساتھ پارٹی اور لوگوں کا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کے تحت آنے والی خواتین اپنے حلقے سے جیت کر آتی ہیں ان کے پاس ترقیاتی فنڈز ہوتے ہیں وہ اپنے حلقے کے لیے کام کرسکتی ہیں جبکہ مختص نشستوں پر آنے والی خواتین کو کچھ خاص موضوعات پر بات اور کام کرنے کے لیے پارٹیز کی جانب سے محدود کردیا جاتا ہے۔ جیسے کہ خواتین بچوں اور خواجہ سراؤں کے حقوق ۔ انہیں ایسے رویے کی بجائے خواتین کو معیشت ، صحت اور تعلیم جیسے منصوبوں میں شریک کرنا چاہیے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں ایوان کی رکنیت سے فائدہ اٹھا سکیں جو معاشرے کی ترقی کے لیے اہم ہے۔‘‘
بات کی جائے پاکستان مسلم لیگ ن کی تو ان کی طرف سے قومی اسمبلی کے لیے ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے تین خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ ایک اُمیدوار فرح خان دو صوبائی نشستوں پر بطور امیدوار نظر آئیں گی ۔
مذہبی سیاسی جماعتیں
پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی جنرل سیٹوں پر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے خواتین امیدواروں کو موقع دیا ہے اگر جمعیت علماء اسلام کی بات کی جائے تو ان اس جماعت کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے لیے 3 خواتین کو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کے لیے کسی خاتون کو نامزد نہیں کیا گیا اسی طرح جماعت اسلامی نے 4 خواتین کو صوبائی اسمبلی کے لیے میدان میں اتارا ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی اسمبلی کے لیے خواتین امیدواروں کی تعداد 5 بتائی گئی تھی جبکہ قومی اسمبلی کے لیے خیبر پختونخوا سے ایک خاتون شاندانہ گلزارنامزد ہوئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ ملنے کے سبب یہ خواتین اب آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیں گی ، تاہم اب تک کی اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف اپنے اس فیصلے میں کچھ تبدیلی بھی لارہی ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر پی کے 80 سے نورین عارف کی جگہ قاسم علی شاہ کو امیدوار قرار دے دیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان ایڈوکیٹ معظم بٹ نے اس حوالے سے یہ موقف اپنایا کہ پی ٹی آئی نے ہمیشہ سے خواتین ورکرز کو اہمیت دی ہے کہ وہ جمہوری عمل میں براہ راست حصہ لیں اورجن خواتین امیدواروں نے ٹکٹ کے لیے درخواست دی تھی ان کی جانچ پڑتال کے بعد ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں تاہم ’’انتخابی نشان نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی حکمت عملی میں تھوڑی بہت تبدیلی لائی گئی جو ضروری ہے جس کے تحت ان امیدواروں کو آگے لایا گیا جو اپنے حلقوں میں سیاسی لحاظ سے متحرک ہیں۔‘‘
نئی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کی خواتین بھی انتخابی اکھاڑے میں ہیں۔ پرویزخٹک کے پارٹٰی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی 6 اور قومی اسمبلی کے لیے 1 خاتون امیدوار ہوں گی۔
سیاست میں خواتین کا کردار
خواتین کی ماضی میں ایوان میں شمولیت کا جائزہ لیا جائے توآخری قومی اسمبلی میں خواتین کی 60 مخصوص نشستوں میں سے تحریک انصاف 28، مسلم لیگ (ن) 16، پیپلز پارٹی 9، متحدہ مجلس عمل کو 2 نشستیں ملیں۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، ایم کیو ایم پاکستان، ق لیگ، بی اے پی، بی این پی کے حصے میں خواتین کی ایک ایک مخصوص نشست آئی تھی جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں خواتین کو مختص 22 نشستوں پر لایا گیا ، اور 26 خواتین اسمبلی کا حصہ رہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کی 18 خواتین تھیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ہارون بلور کی بم دھماکے میں شہادت کے سبب ان کی جگہ ان کی اہلیہ ثمر بلور پی کے 78 سے جنرل سیٹ جیت کر ایوان میں آنے میں کامیاب ہوئیں تھیں ۔
تمامسیاسی جماعتوں کو الیکشن ایکٹ 2017 ء کے سیکشن 206 کے تحت پانچ فیصد نمائندگی کا پابند بنانے کے بعد اب کی بارخواتین کو جنرل سیٹس پر آنے کے زیادہ مواقع دیے جارہے ہیں تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق خواتین ایوان میں چاہیں مخصوص نشستوں پر آئیں یا پھر ووٹ کے ذریعے ایک بات تو طے ہے کہ وہ پاکستانی سیاست میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ لہذا خواتین کو صرف الیکشن کے تقاضے پورے کرنے کے لیے انتخابی عمل کا حصہ نہ بنایا جائے بلکہ اسمبلی تک آنے پر وہ اختیارات بھی تفویض کیے جائیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں حقیقی معنوں میں اپنا حصہ ڈال سکیں ۔
فاطمہ نازش