پاکستانی انتخابات: دیہی خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے متحرک کیوں؟
20 جنوری 2024پاکستان آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک کے 127 ملین رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 58.5 ملین کے قریب خواتین ہیں۔ پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں خواتین ووٹروں کا اندراج مردوں کے مقابلے میں پہلے ہی کم ہے اور روایتی طور پر مردوں کے مقابلے میں خواتین کی انتخابی عمل میں شرکت کم رہی ہے۔
کراچی میں مقیم ایک یونیورسٹی گریجویٹ سعدیہ قمر نے آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں کہا، ''میں نے پچھلے چار عام انتخابات میں کبھی ووٹ نہیں دیا، اور میں اب بھی اپنا ووٹ ڈالنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔‘‘ قمرسابق سفارت کار اور مصنفہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے لبرل عالمی نظریات اور پاکستانی سیاست کی حقیقت کے درمیان پائے جانے والے فرق سے مایوس ہیں۔
دیہی علاقوں میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی بہتر شرح
ترقی پذیر ممالک میں خواندگی اوراعلیٰ معیار زندگی کو اکثر ایسے عوامل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو خواتین کی سیاسی زندگی میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ تاہم اس عمومی تاثر کے برعکس پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات میں صوبہ سندھ کےپانچ دیہی حلقوں میں خواتین کے ووٹ ڈالنےکی شرح ملک بھر میں بڑے شہروں کی خواتین سے بھی زیادہ تھی۔
پاکستان کے گزشتہ عام انتخابات میں قومی سطح پر مجموعی اوسط ٹرن آؤٹ تقریباﹰ 51.7 فیصد رہا تھا اور خواتین ووٹروں میں یہ شرح 46.7 فیصد رہی تھی۔ لیکن سندھ کے دور افتادہ صحرائی ضلع تھرپارکر کے دو حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ بہت زیادہ متاثر کن تھا، جو کہ ایک حلقے میں 72.8 فیصد اور دوسرے میں 71.5 فیصد کے قریب رہا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں حلقوں میں مردوں کے ٹرن آؤٹ کا تناسب خواتین کے مقابلے میں کم تھا، پہلے میں 65.4 فیصد جبکہ دوسرے حلقے میں 70.5 فیصد کے قریب ریکارڈ کیا گیا تھا۔ تھرپارکر کی سرحد پڑوسی ملک بھارت سے ملتی ہے جبکہ اس ضلع میں ہندو براداری کی تعداد پاکستان کے کسی بھی دوسرے ضلع سے زیادہ ہے۔
یہ صحرائے تھر کا علاقہ پینے کے پانی، بجلی، سکول، صحت کے نظام اور سڑکوں کے نیٹ ورک جیسی بنیادی ضروریات کے حوالے سے پسماندہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم یہ علاقہ کوئلے کے ذخائر سے مالا مال ہے اور حکومت ان وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
انتخابات ایک حقیقت
تھرپارکر کی ایک رہائشی اور سماجی کارکن پشپا کماری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ معاشی پریشانیاں صحرائی خواتین ووٹروں کی حوصلہ افزائی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا، "تھر کے اس دور افتادہ علاقے کی خواتین شہروں کی خواتین کے مقابلے میں معاشی طور پر مراعات یافتہ نہیں ہیں اور وہ ہر پانچ سال بعد انتخابات کے زریعے سیاسی نظام میں حصہ لے کر اپنی زندگیوں میں معمولی تبدیلی لانے کی امید کرتی ہیں۔"
49 سالہ کماری نے مزید بتایا کہ اس خطے میں ووٹنگ زیادہ تر براداریوں کی سیاست پرمبنی ہے، جس سے سیاسی امیدواروں کے لیے پورے گاؤں کے ووٹوں کو اکٹھا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، "کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو کھانے پینے کی اشیاء جیسی بنیادی ضروریات یا سرکاری ملازمت کی ضمانت کے کو عوض امیدواروں سے اپنے ووٹ کا سودا کر لیتی ہیں،" ان کے مطابق غربت لوگوں کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف راستے تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
کماری کے مطابق خواتین ایک بار پھر فروری میں آنے والے عام انتخابات کی منتظر ہیں، کیونکہ ان کے پاس انتخابات میں اپنا حصہ ڈالنے اور اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ صوبہ سندھ میں تھرپارکر کے دو حلقوں کے علاوہ باقی تین حلقے، جہاں گزشتہ انتخابات میں خواتین کی ووٹنگ کی شرح سب سے زیادہ رہی تھی وہ پنجاب کے دیہی اور دور دراز علاقوں میں واقع ہیں۔
دیہی علاقوں میں مزید ترقی کی ضرورت
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر سیاست دان تاج حیدر نے کہا کہ دور دراز علاقوں کی خواتین سیاست کے بارے میں زیادہ باشعور ہو گئی ہیں اور وہ سیاست دانوں سے اپنے علاقے کے لیے بنیادی سہولیات لینے سے متعلق آگاہی رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انتخابی نظام میں دیہی خواتین کی دلچسپی بے مثال ہے۔
حیدر کے مطابق دیہی علاقوں کی خواتین میں سیاسی طور پر متحرک ہونے کے لیے مطلوب عوامل تعلیم یا بہتر سماجی حیثیت کے بجائے غربت سے چھٹکارے اور تبدیلی کی خواہش ہے۔ تاج حید کا کہنا ہے کہ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں ان بنیادی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں، جو دیہی خواتین کے لیے اہم اور مثبت اقدام ہیں۔
ان مسائل میں سماجی تحفظ کے پروگرام اور ملک میں صحت عامہ کے نظام کو بہتربنانا شامل ہیں لیکن ان کا ماننا ہے کہ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں غربت کا شکار خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ابھی بہت زیادہ کام کرنا باقی ہے۔
مدثر قاضی