شام میں شدت پسندوں پر مزید حملے کیے جائیں گے، اوباما
24 ستمبر 2014پیر کے دن واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں اور القاعدہ نیٹ ورک کے دیگر گروہوں کے خلاف کارروائی میں تیزی لائی جائے گی۔ نیو یارک جانے سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہم دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو برداشت نہیں کریں گے، ان سے ہمارے لوگوں کو خطرہ لاحق ہے۔‘‘ اوباما نیویارک میں جاری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے کی غرض سے وہاں جا رہے ہیں، جہاں وہ ان جہادیوں کے خلاف مزید عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔
واشنگٹن حکومت کا کہنا ہے کہ عراق و شام میں فعال ان جہادیوں سے نہ صرف علاقائی بلکہ یورپ اور امریکا کی سطح پر خطرات ہیں۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ شام میں ان شدت پسندوں کے خلاف عسکری کارروائی کے لیے پانچ بڑے عرب ممالک سمیت کل چالیس ممالک کی حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام پسندوں کے خلاف شروع کی جانے والی یہ جنگ صرف امریکا ہی کی نہیں ہے۔
امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تازہ عسکری مہم طویل ہو گی جبکہ اس کارروائی کے دوران مستقبل میں متعدد چیلنجوں کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔ اوباما نے واضح کیا کہ وہ اس مقصد کے لیے مزید حمایت حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔ شام میں ان شدت پسندوں کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے پہلی مرتبہ کیے جانے والے حملوں کے کچھ گھنٹوں بعد ہی اوباما نے تصدیق کی کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین اور قطر کی حکومتوں نے شام میں عسکریت پسندوں کے خلاف کی جانے والی اس پہلی کارروائی میں تعاون کیا ہے۔ اوباما کے بقول امریکا، ’ان اقوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔‘
اطلاعات کے مطابق شام میں کی گئی اس کارروائی کے نتیجے میں اسلامک اسٹیٹ کے 70 جبکہ القاعدہ سے وابستہ دیگر پچاس شدت پسند ہلاک ہوئے۔ امریکی محکمہء دفاع پینٹا گون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے اس حوالے سے بتایا، ’’گزشتہ رات شروع ہونے والے حملے صرف ایک ابتداء ہیں۔‘‘ انہوں نے اس کارروائی کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملے جاری رہیں گے۔
امریکی فوجی حکام کے مطابق شام میں شروع کی گئی اس کارروائی سے قبل دمشق حکومت سے کوئی رابطہ کاری نہیں کی گئی لیکن اقوام متحدہ میں شامی سفیر بشار الجعفر نے کہا ہے کہ ان کی امریکی ہم منصب سمانتھا پاور نے انہیں مطلع کیا تھا کہ امریکا اور عرب ممالک کی طرف سے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کارروائی بہت جلد شروع ہونے والی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکا کے علاوہ کسی دوسرے مغربی ملک یا مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے شام میں فعال جہادیوں کے خلاف ان حملوں میں حصہ نہیں لیا ہے۔ تاہم توقع کی جا رہی کہ برطانیہ اس عسکری مہم میں امریکا اور عرب ممالک کے ساتھ شریک ہو سکتا ہے۔ متوقع طور پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران اس حوالے سے کوئی بیان جاری کر سکتے ہیں۔