شمالی کوریا پر مزاکرات کے لیے امریکی ایلچی کا دورہ چین
5 جنوری 2011امریکی ایلچی اسٹیفن بوسورتھ اپنے ایک روزہ دورے پر آج دن کےکسی وقت بیجینگ پہنچ رہے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے سیول میں جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ اور جوہری مزاکرات کار سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد شمالی کوریا کے متنازعہ جوہری پروگرام اور جنوبی کوریا کے سرحدی علاقے پر شمالی کوریا کے مارٹر حملے کے باعث پیدا ہونے والے حالیہ تناؤ میں نرمی پیدا کرنے پر بات چیت کرنا تھا۔
اس ملاقات کے بعد جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ کی جانب سے یہ واضح طور پر نہیں کہا گیا کہ آیا ان دونوں ممالک کے درمیان مزاکرات کا کوئی امکان ہے یا نہیں تاہم ان کا کہنا تھا، "دونوں ممالک کے درمیان مزاکرات کا انحصارشمالی کوریا کے رویے پر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شمالی کوریا امن کا راستہ منتخب کرتا ہے یا تصادم کا"۔ ان کے محتاط بیان میں شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیےچھ ملکی مزاکرات کوبھی کارآمد ذریعہ قرار دیا گیا۔ان چھ ممالک میں امریکہ، چین، جاپان، روس اور دونوں کوریائی ممالک شامل ہیں۔
دوسری جانب امریکی ایلچی بوسورتھ نے جنوبی کوریائی حکام سے ہونے والی ملاقاتوں پر کوئی بیان دینے سے گریز کیا تاہم انہوں نے اس بات سے انکار ضرور کیا کہ اس ملاقات میں امریکہ کی جانب سے شمالی کوریا سے مزاکرات کے لیے جنوبی کوریا پر دباؤ ڈالا گیا ہے۔
ان ملاقاتوں کے حوالے سے سیول کے ایک اخبار جونگ انگ کے مطابق امریکہ اور چین کو چاہئے کہ وہ شمالی اور جنوبی کوریا کو مزاکرات پر راضی کریں اور ایسے طریقے پیش کریں، جس سے ان دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی آ سکے۔ اخبار کے اداریے میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر خطے میں جنگ چھڑ جاتی ہے، تو یہ نہ صرف دونوں کوریائی ممالک کے لیے بلکہ ان کے حلیف ممالک چین اور امریکہ کے لیے بھی خطرناک ہوگی۔
واضح رہے کہ سفارتی سطح پر مچنے والی یہ ہلچل اس اہم ملاقات سے پہلے دیکھنے میں آ رہی ہے، جو رواں ماہ امریکی صدر باراک اوباما اور چینی صدر ہوجن تاؤ کے درمیان شمالی کوریا کے موضوع پر ہونے والی ہے۔ اس سے قبل اسی موضوع پر واشنگٹن میں امریکی مشیر برائے قومی سلامتی امور نے چین کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی تاکہ باہمی تعاون سے ایسے طریقوں پر غور کیا جائے، جن کے ذریعے شمالی کوریا کو جوہری پرواگرام ترک کرنے پر راضی کیا جا سکے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: عاطف توقیر