شہباز بھٹی کی گاڑی پرفائرنگ، ہلاکت کی خبریں
2 مارچ 2011توہین رسالت کے متنازعہ قانون میں ترمیم پر کھل کر زور دینے والےغیر مسلم شہباز بھٹی کو قتل کرنے کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی آج صبح اپنے گھر سے دفتر کے لیے روانہ ہوئے تو آئی ایٹ سیکٹر میں ان کی گاڑی پر حملہ کر دیا گیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ تین افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور سفید رنگ کی مہران گاڑی پر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق شہباز بھٹی کو فوری طور انتہائی زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے شفا ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹرعظمت اللہ قریشی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا،’ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اوہ مردہ حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے۔ ان پر فائرنگ کی گئی تھی۔‘ اطلاعات کے مطابق انہیں متعدد گولیاں لگیں۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق انہیں کلاشنکوف سے نشانہ بنایا گیا۔ اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ اہلکار واجد درانی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا،’ ابتدائی طور پر معلوم ہوا ہے کہ تین حملہ تھے۔ ان پر شائد کلاشنکوف سے حملہ کیا گیا۔ لیکن ابھی تحقیقات جاری ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ اصل حقائق کیا ہیں۔‘
توہین رسالت کا قانون گزشتہ برس نومبر میں اس وقت لوگوں کی بہت زیادہ توجہ کا مرکز بن گیا تھا جب ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو پیغمبر اسلام کے بارے میں متنازعہ کلمات ادا کرنے کے جرم میں ایک عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔
اس دوران پاکستان کے لبرل اور انسانی حقوق کے گروپوں نے توہین رسالت کے قانون میں چند ترامیم کا تقاضہ شروع کر دیا تاکہ اسے بہتر بناتے ہوئے، اس کا غلط استعمال روکا جا سکے۔ اس سے قبل گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو صرف قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اس قانون میں ترمیم کے لیے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امتیاز احمد