ضمنی الیکشن: پی ٹی آئی کامیاب، مگر سیاسی نقصان کس کس کا ہوا
17 اکتوبر 2022کل اتوار کے روز ہونے والے ان ضمنی انتخابات کے نصف شب کے بعد موصول ہونے والے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کو ملنے والی قومی اسمبلی کی تمام چھ نشستوں پر عمران خان کامیاب ہوئے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ سے جیتنے کے بعد ایک بار پھر قومی رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
ادھر پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی طرف سے خالی کردہ تین نشستوں میں سے بھی دو نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف ہی نے کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ ن پنجاب اسمبلی کی صرف ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اسلام آباد میں حکمران موجودہ سیاسی اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے، جسے ملتان اور کراچی میں قومی اسمبلی کی دو سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔
پی ٹی آئی کی شاندار فتح
ان ضمنی انتخابات میں عمران خان خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی تینوں خالی نشستوں کو اپنے نام کر لینے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان کو دس ہزار، پشاور میں اے این پی کے غلام احمد بلور کو پچیس ہزار اور مردان میں جے یو آئی کے محمد قاسم کو آٹھ ہزار پانچ سو ووٹوں کی سبقت سے شکست دی۔
آرمی چیف کے خلاف ٹویٹ مہنگی پڑ گئی، سینیٹر اعظم سواتی گرفتار
اس کے علاوہ عمران خان نے فیصل آباد میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی رشتہ دار اور مسلم لیگ ن کے سیاست دان عابد شیر علی کو پچیس ہزار ووٹوں کی برتری سے ہرایا جبکہ کراچی کے ایک حلقے میں انہوں نے ایم کیو ایم کے امیدوار کو اکتیس ہزار آٹھ سو سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔
دوسری طرف ننکانہ صاحب میں پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے استعفے کے بعد خالی ہونے والی نشست پر بھی عمران خان ہی کامیاب ہوئے۔ انہوں نے سابق رکن قومی اسمبلی رائے منصب علی خان کھرل کی بیٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی امیدوار شذرا منصب کو ساڑھے بارہ ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے ہرایا۔
پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں خانیوال اور بہاولنگر میں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نون کو ملنے والی واحد سیٹ شیخوپورہ سے صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے کی تھی۔
پیپلز پارٹی کی پیش قدمی
گزشتہ روز کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو شکست دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کراچی میں ملیر کے علاقے سے جس واحد نشست سے ہارے، وہاں پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ نے انہیں دس ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے۔
نوازشریف اور پی ٹی آئی کی منحرفین ملاقاتیں: پنجاب میں تبدیلی کی خبریں
ادھر ملتان میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اپنی بیٹی مہر بانو کو یہ الیکشن لڑوایا تھا۔ یہ وہی حلقہ تھا، جہاں سے 2018ء میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کامیاب ہوئے تھے۔
اس حلقے میں شاہ محمود قریشی انتخابی مہم کے دوران اپنا پورا زور لگانے کے باوجود اپنی بیٹی کو جتوا نہ سکے، جنہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کے ہاتھوں تقریباﹰ بیس ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس حلقے میں پی ٹی آئی کے ووٹروں نے یہ سیٹ موروثی سیاست کی نذر کر دیے جانے کے عمل کو پسند نہ کیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی بدترین شکست
پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب میں مجموعی طور پر پانچ نشستوں پر ضمنی انتخاب میں حصہ لیا اور چار نشستوں پر اسے شکست ہوئی۔ فیصل آباد کا وہ علاقہ جو تاریخی طور پر مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے، وہاں نواز شریف کے رشتہ دار عابد شیر علی بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ مقامی ووٹروں کے مطابق عابد شیر علی لندن میں میاں نواز شریف کے پاس اور اپنے حلقے کے عوام سے دور رہے اور اسی لیے رائے دہندگان نے یہاں بھی موروثی سیاست کے خلاف ووٹ دیا۔
مسلم لیگ ن کیوں ہاری؟
تجزیہ نگار مزمل سہروردی کہتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے ان انتخابات کے ملکی سیاست پر اثرات کو کم سمجھتے ہوئے بھرپور انتخابی مہم چلانے سے گریز کیا۔ ن لیگ نے اپنے حلقوں میں کوئی بڑا جلسہ نہ کیا۔ سہروردی کے بقول مریم نواز چند دن بعد بھی لندن جا سکتی تھیں، نواز شریف ویڈیو لنک کے ساتھ بھی ووٹروں سے مخاطب ہو سکتے تھے۔ ''اور تو اور، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی سمیت کوئی مرکزی لیڈر بھی اس انتخابی مہم میں کہیں نظر نہ آیا۔ اسی لیے یہ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔‘‘
نیا سیاسی منظر نامہ، عمران خان کے لیے اہم فیصلوں کی گھڑی؟
دفاعی تجزیہ نگار فاروق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے چھ ماہ کے دوران مہنگائی، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ووٹروں نے مسلم لیگ ن کی حکومت پر غصے کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق ضمنی انتخابات کے نتائج کا یہ رجحان یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ لوگ موجودہ وفاقی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور انہوں نے کرپٹ لوگوں کے خلاف مقدمات کے خاتمے کو بھی ناپسند کیا ہے۔
ایک اور تجزیہ نگار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کی فتح اور مسلم لیگ ن کی شکست کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ووٹروں نے عمران خان کو بدنام کرنے کے لیے جاری کی گئی آڈیو لیکس کا بھی کوئی اثر نہیں لیا۔
انتخابی نتائج کے سیاسی اثرات
فاروق حمید سمجھتے ہیں کہ اب عمران خان کی عوامی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، ان نتائج کے بعد ملک کے 'بڑے سٹیک ہولڈرز‘ کے لیے عمران خان کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہو گا اور ان پر ملک میں جلد عام انتخابات کرانے کے لیے دباؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔
مزمل سہروردی کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ نومبر کے مہینے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اسے عمران کے مطالبے کے مطابق ملک میں جلد انتخابات کرانے کی حمایت کی فرصت نہیں۔ انہوں نے کہا، ''ان نتائج نے پی ڈی ایم کو بھی یہ بتا دیا ہے کہ جلد عام انتخاب کروانا اب اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے حکومت اپنی مدت پوری کرنا چاہے گی۔‘‘
آڈیو لیکس: پاکستانی سیاست دانوں کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش؟
یہ انتخابی نتائج قومی اسمبلی میں پہلے سے موجود جماعتوں کی عددی حیثیت میں کسی قابل ذکر تبدیلی کا باعث نہیں بنیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پہلے ہی قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور عمران صرف صرف ایک ہی سیٹ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔
کیا عوامی حمایت عمران خان کو حکومت دلوا سکتی ہے؟
فاروق حمید سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے سپورٹر اب ووٹروں میں بدلتے جا رہے ہیں اور انہیں ملکی تاریخ کی نہ صرف سب سے بڑی عوامی حمایت مل رہی ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے ان انتخابی نتائج میں مستقبل کی ممکنہ جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ فاروق حمید کے خیال میں آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی ممکنہ طور پر دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
حکومت کا مستقبل: حالات کس رخ پر جارہے ہیں
دوسری طرف مزمل سہروردی کا خیال ہے کہ اصل سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی عمران خان کی جگہ اپنے کسی عام ورکر کو الیکشن میں امیدوار بناتی، تو کیا پھر بھی یہی نتائج حاصل ہوتے؟ ان کے خیال میں مسلم لیگ ن کی اہمیت کا بھی لازمی سے کم اندازہ نہیں لگایا جانا چاہیے کیونکہ اس پارٹی پر اعتماد کرنے والے ووٹروں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔
مزمل سہروردی کے مطابق، ''عمران خان نے ن لیگ سے بیانیہ لے کر انہیں حکومت دے دی۔ اب انہیں حکومت لینے کے لیے بیانیہ واپس کرنا پڑے گا۔ وہ مزاحمت کی سیاست اور حقیقی آزادی یا 'ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے کے ساتھ پاکستان میں کبھی بھی اقتدار میں نہیں آ سکیں گے۔ انہیں حکومت میں آنے کے لیے اپنے بلند بانگ نعروں کے برعکس اسی طرح کی کسی مصلحت پسندی سے کام لینا ہو گا، جیسی مصلحت پسندی کا مظاہرہ شریف برادران نے موجودہ حکومت میں آنے کے لیے کیا تھا۔ الیکشن تو عمران خان نے گزشتہ بھی بہت اچھی طرح جیتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس عوامی مقبولیت کے بعد انہوں نے پہلے آخر اپنا کون سا ہدف حاصل کر لیا تھا، جو اب کر لیں گے۔‘‘
تجزیہ نگار خالد محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دکھ کی بات یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں ملک میں سیاسی استحکام کا حصول نظر آ رہا ہے اور نہ ہی مالی بحران کا خاتمہ۔ سیاسی کھیل تماشہ پہلے بھی جاری تھا اور اب بھی۔ بس عوام کے مسائل ہیں، جو نظر انداز ہی کیے جا رہے ہیں۔‘‘