طالبان سے مذاکرات کئے جا سکتے ہیں، گٹن برگ
21 دسمبر 2009جرمن وزیر دفاع گٹن برگ حال ہی میں افغانستان کا دورہ مکمل کر کے واپس لوٹے ہیں۔ اعتدال پسند طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے دیئے جانے والے ان کے اس حالیہ بیان کو جرمنی کی افغان پالیسی میں ممکنہ تبدیلی کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔
جرمنی کی جانب سے اس سے قبل طالبان کے ساتھ بات چیت کے امکانات کو رد کیا جاتا رہا تھا۔ ایسی خبریں بھی گردش میں ہیں کہ بشمول برطانیہ اور امریکہ کے کئی اتحادی ملکوں کی جانب سےدرپردہ کابل حکومت پر اعتدال پسند طالبان قیادت سےبات چیت شروع کرنے پر زوردیا جارہا ہے۔
گٹن برگ نے جرمن روزنامے Welt am Sonntag دئے گئے انٹرویو میں کہا کہ تمام باغی مغربی معاشروں کے لئے یکساں طور پر خطرناک نہیں ۔ جرمن وزیر کے بقول انہوں نے مختلف لسانی گروہوں اور قبائل کے ساتھ رابطے بحال رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔
تاہم ساتھ ہی انہوں بھی کہا کہ ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہیے، جس میں اتحادی ممالک پھنس جائیں۔ سابقہ جرمن حکومت کے دور میں بھی طالبان کے ساتھ بات چیت کے امکانات زیر بحث رہے تھے تاہم ایسے امکانات کو مسترد کردیا گیا تھا۔
دریں اثنا جرمن اپوزیشن جماعت سوئس ڈیموکریٹک پارٹی SPD نے واضح کردیا ہے کہ افغانستان کے لئے مزید فوج بھیجنے کی مخالفت کی جائے گی۔ پارٹی کے سربراہ زگمار گابرئیل نے حال ہی میں ایک بیان دیا کہ افغانستان میں جرمن فوجیوں کی تعداد کو ساڑھے چار ہزار سے تجاوز نہیں کرنے دیا جائے گا۔
امریکہ کی جانب سے افغانستان کے لئے مزید فوج بھیجنے کی درخواست پر جرمنی باضابطہ طورپر اپنے لائحہ عمل کا اعلان جنوری میں لندن منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں کرے گا۔
رپورٹ : شادی خان
ادارت :عدنان اسحاق