عالمی مالیاتی ادارے میں اصلاحات پر اتفاق
23 اکتوبر 2010شمالی کوریا میں منعقد ہوئے ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے گروپ جی بیس کے اس اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف میں فیصلہ سازی کے لئے ابھرتی ہوئی معیشتوں کو زیادہ حقوق دئے جائیں گے۔
مبصرین کے مطابق سن 1945ء میں آئی ایم ایف کی تخلیق کےبعد پہلی مرتبہ تاریخی اصلاحات عمل میں لائی گئی ہیں، جس کے تحت اس مالیاتی ادارے میں یورپی ممالک کا اثرو رسوخ ، ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم ہو جائے گا۔
سیول کے جنوب میں 370 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع Kyongju میں منعقد ہوئے اس دو روزہ اجلاس کے دوران ہونے والی پیش رفت پرعالمی رہنماؤں نے مُسرت کا اظہار کیا ہے۔ جرمن وزیر اقتصادیات ’رائینر بُروڈرلے‘ نے کہا کہ کہ آئی ایم ایف میں لائی جانے والی یہ اصلاحات تاریخی نوعیت کی ہوں گی۔
آئی ایم ایف کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈومینیک سٹراؤس کاہن اور ورلڈ بینک کے صدر رابرٹ زوئلک کی طرف سے پیش کردہ مجوزہ اصلاحات کی حتمی منظوری کے لئے اس ادارے کے 187 اراکین ممالک کی تائید ضروری ہے تاہم ان اصلاحات کی منظوری اس لئے یقینی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس سلسلے میں 80 فیصد ووٹنگ کے حقوق جی بیس گروپ کے پاس ہی ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے زیر بحث اس اصلاحاتی مسودے کی منظوری کے بعد سن 2011ء سے ان پرعملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔ مجوزہ اصلاحات کے مطابق آئی ایم ایف کے اندر فیصلہ سازی کے قریب چھ فیصد حقوق چین کو دئے جائیں گے جبکہ فیصلہ سازی کےلئے پانچ فیصد ووٹ برازیل اور بھارت کے حصے میں آئیں گے۔
اسی اثناء میں عالمی مبصرین نے چین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ حکومت اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرتے ہوئے تجارت میں فائدے حاصل کر رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ معاشی بحالی کا یہ طریقہ کار خطرناک ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکی وزیر خزانہ ٹموتھی گائتھنر نے چین کا نام لئے بغیر ترقی پذیر ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنی کرنسیوں کو مستحکم بنائیں تاکہ عالمی اقتصادی بحالی کو تیز تر بنایا جا سکے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: کشور مصطفےٰ