عسکریت پسند گروپوں کا خاتمہ استحکام کے لیے ناگزیر، عمران خان
10 اپریل 2019پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے بدھ دس اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے سربراہ عمران خان نے منگل کی شام اپنے دفتر میں غیر ملکی صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں دو حریف ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین جو شدید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی اور جس طرح کے اقتصادی مسائل کا اس وقت پاکستان کو سامنا ہے، یہ دونوں عوامل اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک میں عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے۔
عمران خان کے بقول اسی کارروائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے داخلی استحکام سے پاکستان کو ان مشکل حالات سے کامیابی سے نکالا جا سکتا ہے، جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ پاکستان کو اس وقت نہ صرف شدید مالیاتی مسائل درپیش ہیں بلکہ اسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یا ایف اے ٹی ایف نامی بین الاقوامی گروپ کی طرف سے اس سلسلے میں بھی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ اپنے خلاف پابندیوں سے بچنے کے لیے مقامی عسکریت پسند گروپوں اور انہیں مہیا کیے جانے والے مالی وسائل کے خلاف ایکشن لے۔
منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی دستیابی کی روک تھام کے لیے اس عالمی ٹاسک فورس کا اسلام آباد حکومت سے مطالبہ اپنی جگہ، لیکن عمران خان نے غیر ملکی صحافیوں کو بتایا کہ پاکستانی حکومت مسلح عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کا تہیہ اس لیے بھی کیے ہوئے ہے کہ ایسا کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔
پاکستانی سربراہ حکومت نے کہا، ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے، ملک نے فیصلہ کیا ہے، ہمارے اپنے بہتر ریاستی مستقبل کے لیے، بیرونی دباؤ کو بھول جائیں، کہ ہم عسکریت پسند گروپوں کو اپنے ہاں کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
پاکستان اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش میں
روئٹرز نے لکھا ہے کہ عمران خان کا یہ موقف پاکستان کی ان کوششوں کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے کہ اسلام آباد اب اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش میں ہے، خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ پاکستان پر الزام ہے کہ ماضی میں اس ملک کے سکیورٹی اداروں نے برس ہا برس تک مسلح عسکریت پسند گروپوں کو اپنے ہمسایہ ممالک افغانستان اور بھارت میں اپنے عسکری اور سیاسی ’مقاصد کے حصول‘ کے لیے استعمال کیا۔
1980ء کی دہائی میں افغانستان میں اب کالعدم ریاست سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کی صورت میں جس طرح ہندوکش کی اس ریاست میں عسکریت پسندی کی عملی حمایت کی تھی، اس بارے میں عمران خان نے پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے کہا، ’’جب افغانستان میں جہاد ختم ہو گیا تھا، تو ہمیں اس کے بعد ایسے عسکریت پسند گروپوں کو قائم رہنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے تھی۔‘‘
’فوج اور ملکی خفیہ ادارے بھی حکومت کے ساتھ‘
روئٹرز کے مطابق عمران خان نے اس گفتگو میں غیر ملکی صحافیوں کے اس بارے میں ایک سوال کو جواب بھی نفی میں دیا کہ آیا حکومت کو مسلح عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ممکنہ طور پر ملکی فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وزیر اعظم خان نے کہا، ’’آج اس کارروائی اور ایسے گروپوں کے خاتمے کے لیے حکومت کو فوج اور ملک کی تمام خفیہ ایجنسیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہ گروپ آئی ایس آئی کے لیے کس کام کے ہیں؟ یہ گروپ تو قائم ہی افغان جہاد کے لیے کیے گئے تھے۔‘‘
دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کی روک تھام کے لیے قائم عالمی گروپ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو ممکنہ طور پر بلیک لسٹ کیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا، ’’ہم بلیک لسٹ کیے جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اس کا مطلب پاکستان کے خلاف پابندیوں کا نفاذ ہو گا۔‘‘
م م / ک م / روئٹرز