1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان جی ایچ کیو کے لیے سب سے بڑا خطرہ

20 مارچ 2023

فوج کی حمایت سے برسر اقتدار آنے اور بعد میں جی ایچ کیو کو برا بھلا کہنے کا الزام پاکستان میں تقریباً تمام سیاست دانوں پر لگتا رہا تاہم کہا جا رہا ہےکہ عمران خان ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کےخلاف سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Owvd
Pakistan | Imran Khan | ehemaliger Premierminister
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے فوج پر تابڑ توڑ حملوں نے ملک کے کئی حلقوں  میں یہ تاثر پیدا کردیا ہے کہ سابق کپتان جی ایچ کیو کے خلاف سب سے خطرناک سیاست دان بن کر ابھر رہے ہیں۔

عمران خان نے حالیہ دنوں میں نہ صرف آرمی چیف پر تنقید کی بلکہ انہوں نے ایک بار پھر میجر جنرل فیصل نصیر کا بھی نام لیا اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں گرفتار کر کے ان کے ساتھ شہباز گل اور اعظم سواتی جیسا کیا جائے گا۔ سابق وزیر اعظم نے ایک بار پھر اپنے قتل کی سازش کے حوالے سے بھی انکشاف کیا۔

 ملک کے اندر بیٹھ کر لڑائی

 اس سوال کے جواب میں کہ دوسرے سیاست دانون کے برعکس عمران خان کیا جی ایچ کیو کے لیے زیادہ خطرناک سیاست دان بن کر ابھر رہے ہیں؟ لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان جی ایچ کیو کے خلاف سب سے مؤثر آواز ثابت ہورہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بے نظیر اور نواز شریف نے جی ایچ کیو کے خلاف لڑائی ملک کے باہر سے لڑی لیکن عمران خان نے یہ لڑائی پاکستان میں رہ کر لڑی، جس سے اسٹیبلشمنٹ کمزور ہوئی اور کپتان مقبول۔‘‘

 خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاست دانوں نے جب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف صف آرائی شروع کی، تو انہوں نے ملک کے دوسرے طاقتور اداروں پر تنقید کو ہلکا رکھا تاکہ بیک وقت کئی لڑائیاں نہ لڑی جائیں۔ لیکن عمران خان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

حبیب اکرم کے مطابق عمران خان نے ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا بلکہ انہوں نے اُس میڈیا کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جو اسٹیبلشمنٹ کا اتحادی رہا ہے۔

جی ایچ کیو کے راز عمران کے ہاتھوں میں

سیاست دانوں کا خیال ہے کہ دو ہزار اٹھارہ میں جب عمران خان برسراقتدار آئے، تو انہیں بہت سازگار حالات میسرتھے۔ ملک کی طاقتور ترین فوج بھی ان کے ساتھ تھی جبکہ عدلیہ کا رویہ بھی ان کے ساتھ نسبتاً نرم تھا۔

  کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب سردار اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے راز عمران کے پاس ہیں اسی لیے اس نے اسٹیبلشمنٹ کی ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پر اسٹیبلشمنٹ اتنا زیادہ بھروسہ نہیں کرتی تھی۔ اس لیے انہیں بہت سارے راز نہیں بتائے لیکن کیونکہ عمران خان سے اسٹیبلشمنٹ کی بہت قربت تھی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے لیے اپنا دل کھول دیا۔‘‘

سردار اسلم رئیسانی کے مطابق  عمران خان اب ان رازوں کو استعمال کر رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔

 بیرون ملک مقیم پی ٹی آئی کے حامی

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے اوورسیز یونٹ سے لیکن پاکستان تحریک انصاف کے یونٹس ان میں سب سے زیادہ متحرک ہیں۔

نواب اسلم رئیسانی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عمران خان کی مضبوطی کی ایک بڑی وجہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی ہیں۔ ان کے بقول بیرون ملک مقیم پاکستانی، جو عمران کے حامی ہیں، نے فوج کے خلاف بھرپور مہم شروع کی ہوئی ہے اور فوج ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی اس لیے عمران خان کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے۔

 غیر لچکدار رویہ

 پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا دعویٰ ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے سودے بازی کرنے کے لیے ان کے ہاتھ پیر پکڑ رہے ہیں۔ اصل صورتحال کیا ہے اس بارے میں لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰی کا کہنا ہے کہ ماضی میں نواز شریف اور بے نظیر نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑائی لڑی لیکن عام آدمی کے خیال میں انہوں نے یہ لڑائی ذاتی مفادات کے لیے لڑی۔ غلام مصطفٰے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑائی کو لوگ اصولوں کی جنگ قرار دیتے ہیں۔ جنرل باجوہ کے بیانات بھی عمران کے اس دعوے کو تقویت دیتے ہیں کہ اس کی لڑائی اصولوں پر ہے۔‘‘

جنرل کی گرفتاری: کیا پی ٹی آئی کے خلاف سختی بڑھ رہی ہے؟

 بین الاقوامی شہرت

 پاکستان میں سیاسی افق پر جو رہنما نمودار ہوئے، ان میں بین الاقوامی سطح پر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اچھی طرح جانا جاتا ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان ملکی اور غیر ملکی سطح پر سب سے شہرت یافتہ سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں۔

جنرل غلام مصطفٰی کا خیال ہے کہ کیوں کہ بین الاقوامی میڈیا یا عمران خان کے ماضی کی وجہ سے ان کو بہت اچھی طرح جانتا ہے، اس لیے عمران خان کی طرف سے دیے جانے والے سیاسی بیانات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کے بقول یقیناً یہ بات اسٹیبلشمنٹ کے لیے پریشان کن ہے، ''اس کے علاوہ عمران خان بیانیہ بنانے میں بھی ماہر ہیں۔ انہوں نے جس طرح آنسو گیس کے خالی ڈبے اپنے سامنے رکھ کر بین الاقوامی میڈیا کو دکھایا، ایسا پہلے کسی سیاستدان نے نہیں کیا۔‘‘

فوجی حمایت اور سیاست دان

پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے ہے کہ شیخ مجیب الرحمن اور نیشنل عوامی پارٹی کے مقابلے میں ایوب خان کی آمریت نے ذوالفقار علی بھٹو کی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مدد کی اور بھٹو کنونش لیگ کے ایک اہم عہدیدار بھی رہے۔

جنرل ضیاء کے دور میں نواز شریف کو اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی اور بعد میں بھی جی ایچ کیو نے بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں نواز شریف کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔

بالکل اسی طرح کچھ سندھی اور بلوچ قوم پرست جماعتوں، مذہبی تنظیموں اور متحدہ قومی موومنٹ کو بھی ماضی میں جی ایچ کیو کا آشیر باد رہا۔ بے نظیر کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ پرویز مشرف سے معاہدہ کر کے پاکستان واپس آئیں تھیں۔

دو ہزار گیارہ میں جب عمران خان کی شہرت کا سورج طلوع ہونا شروع ہوا، تو اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں آئی ایس آئی اور فوج کا ہاتھ تھا۔  یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ 2018 ء کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کا ساتھ دیا۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف ان تمام دعوؤں کی سختی سے تردید کرتی ہے اور اس نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی بے ساکھی نہیں چاہتے۔ پارٹی کا دعوی ہے کہ پی ڈی ایم کو جی ایچ کیو کی حمایت حاصل ہے لیکن اس کے باجود گزشتہ ایک سال میں پی ٹی آئی نے سارے ضمنی انتخابات جیتے ہیں۔

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتا ہوا درجہ حرارت اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملک میں سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے فوج کا دفاع  بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پی ڈی ایم خان کی پارٹی کے خلاف سخت رویہ اختیار کرے گی۔