عمران خان کا ٹوئٹر اسپیس سیشن: ’فوج کے خلاف بات نہ کریں‘
21 اپریل 2022پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے گزشتہ روز منعقد کیے گئے ٹوئٹر اسپیس سیشن میں سابق وزیر اعظم عمران خان ڈیڑھ لاکھ سے زائد صارفین سے ہم کلام ہوئے۔
اس لائیو آڈیو سیشن کے دوران عمران خان کا اپنی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں قانون سازی کے عمل میں اس لیے مشکلات پیش آئیں کہ ان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں زیادہ تر انہیں بلیک میل کرتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی سیاستدان اپنے کاروباری مقاصد پورے کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل ہوئے تھے، ''انہیں روکنے کی کوشش کی گئی، جس وجہ سے کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
لاہور جلسہ
پاکستان کے شہر لاہور میں آج اکیس اپریل بروز جمعرات پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ایک بڑا سیاسی جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس جلسے میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی بڑی تعداد میں شرکت کی توقع کی جا رہی ہے۔
ٹوئٹر اسپیس سیشن میں لاہور جلسے کے حوالے سے عمران خان کی جان کو لاحق مبینہ خطرے کے بارے میں بھی ایک سوال پوچھا گیا، جس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ وہ لاہور جلسے میں شرکت ضرور کریں گے، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاہور میں مینار پاکستان کے مقام پر جلسے میں آزادی کی تحریک شروع کی جائے گی اور لوگ اس میں ریکارڈ تعداد میں شرکت کریں گے۔
فوج مخالف سوشل میڈیا ٹرینڈز
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی روز تک ملکی فوج پر تنقید کی جاتی رہی تھی اور مختلف ٹرینڈز دیکھنے میں آئے تھے۔ اس حوالے سے عمران خان نے اپنے پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں سے کہا کہ ملکی فوج ایک ایسا ادارہ ہے، جس کے خلاف کوئی بات نہیں کی جانا چاہیے۔ ان کے بقول، ''عمران خان سے زیادہ اس ملک کو فوج کی ضرورت ہے۔‘‘
ٹوئٹر اسپیس پر نیا ریکارڈ
پی ٹی آئی چیئرمین کے اس ٹوئٹر اسپیش سیشن نے ٹوئٹر کی تاریخ میں بظاہر ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کر دیا۔ رپورٹوں کے مطابق اس سیشن میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد صارفین شریک ہوئے۔ اس سے قبل کے پاپ اسٹار کے ایک ٹوئٹر اسپیس سیشن میں 44 ہزار صارفین شریک ہوئے تھے۔
ماہرین کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کا یہ لائیو ٹوئٹر اسپیس سیشن تحریک انصاف کے لاہور میں جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر کارکنوں کو متحرک کرنے میں کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ع آ / م م