غزہ امدادی قافلے پر اسرائيلی حملہ: بين الاقوامی قانون کی خلاف ورزی
27 ستمبر 2010مئی ميں اسرائيل کے زير محاصرہ فلسطينی علاقے غزہ کے لئے امدادی اشياء لے جانےوالے نو بحری جہازوں کا قافلہ شمالی قبرص سے روانہ ہوا تھا۔ اسرائيلی فوجيوں نے 31 مئی کو بحيرہء روم ميں اس قافلے پر حملہ کرکے نو ترک امدادی کارکنوں کو ہلاک کرديا تھا۔ اسرائيل کا کہنا ہے کہ ان کارکنوں نے اُس کے فوجيوں پر لاٹھيوں اور چاقؤوں سے حملہ کيا تھا اور اس کے بعد ہی فوجيوں نے اپنے دفاع کے لئے گولی چلائی تھی۔ تاہم اقوام متحدہ کے ماہرين کا کہنا ہے کہ کم ازکم چھ ہلاک شدگان کی موت اندھادھند قتل کے مترادف ہے۔ ايک بين الاقوامی تحقيقاتی کميشن کی رپورٹ کے مطابق امدادی بحری قافلے پر اسرائيلی بحريہ کا حملہ ناقابل قبول بےدردانہ اور وحشيانہ انداز ميں کيا گيا تھا۔ رپورٹ کے مطابق يہ اسرائيلی فوجی حملہ نہ صرف ناموزوں تھا بلکہ يہ ايک بالکل غير ضروری اور ناقابل يقين حد تک شديد تشدد کے استعمال کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
بين الاقوامی تحقيقاتی کميشن نے اپنی رپورٹ ميں يہ بھی لکھا ہے کہ اگر اسرائيلی فوجی غير موزوں طاقت استعمال نہ بھی کرتے اور نو کارکنوں کو ہلاک نہ بھی کرتے، تب بھی امدادی بحری قافلے پر صرف اُن کا حملہ ہی بين الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی کيونکہ يہ حملہ غزہ کے ساحل سے 120ميٹر سے بھی زيادہ دور کے فاصلے پر اور اس طرح گہرے سمندر ميں کيا گيا۔ اس مقام پر اسرائيل کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہيں ہيں اور يہاں اُسے اسرائيلی حکومت کا دعوی کردہ، مبينہ خطرے کو روکنے کے پيشگی اقدام کا حق بھی حاصل نہيں ہے۔
اسرائيل نے اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹيکل نمبر 51 کو امدادی بحری قافلے پر اپنی بحريہ کے حملے کا جواز بنايا ہے۔ اس آرٹيکل کے مطابق ممالک کو اپنے دفاع کے لئے کارروائی کی اجازت ہے۔ اسرائيل کا کہنا ہے کہ اُسے يہ خطرہ تھا کہ امدادی جہاز فلسطينی انتہا پسند جماعت حماس کے لئے اسلحہ بھی لے جارہے تھے۔ تاہم کميشن نے اپنی رپورٹ ميں غزہ کی اسرائيلی ناکہ بندی کو بھی بين الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار ديا ہے۔
اسرائيلی حکومت نے يہ کہہ کر اس رپورٹ کو رد کرديا ہے کہ يہ اُتنا ہی جانبدارانہ اور يکطرفہ ہے جتنا کہ اسے مرتب کرنے والا کميشن جانبدار ہے۔ اُس نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کميشن پربھی جانبدایر، سياسی اور انتہاپسندانہ طرز عمل کا الزام لگايا ہے۔
بين الاقوامی تحقيقاتی کميشن ميں دی ہيگ کی عالمی تعزيری عدالت کے سابق جج ہڈسن فلپس جيسے، بين الاقومی قانون کے ماہرين کو شامل کيا گيا تھا۔اسرائيل کی جانب سے ہر قسم کے تعاون سے انکار کی وجہ سے کميشن کو نوامدادی جہازوں پر حملہ کرنے والے نقاب پوش اسرائيلی فوجيوں سے پوچھ گچھ کا کوئی موقع نہيں ديا گيا اور اُسے صرف ان جہازوں کے مسافروں ہی سے سوالات پر اکتفا کرنا پڑا۔
کميشن نے اپنی رپورٹ ميں کہا ہے کہ بدترين جرم کا ارتکاب کرنے والے نقاب پوش فوجيوں کی شناخت اسرائيلی حکام کے تعاون کے بغير ممکن نہيں ہے۔اوران فوجيوں کے احتساب کے لئے اسرائيل کا تعاون ضروری ہے۔
آج سہ پہر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس ميں اسرائيل سے اس مطالبے پر زور ديا جائے گا۔ کونسل کے 47اراکين کی واضح اکثريت ايک ايسی قرارداد منظور کرنے کے حق ميں ہے جس ميں اسرائيل کی مذمت کی گئی ہو اور اُس سے حملے ميں ملوث فوجيوں کے نام ظاہر کرنے کا مطالبہ کيا گيا ہو۔ تاہم ابھی تک يہ واضح نہيں ہے کہ امريکہ اور کونسل کے يورپی شرکاء ممالک کيا طرز عمل اختيار کريں گے۔ کم ازکم امريکہ اور جرمنی اب تک انسانی حقوق کی کونسل کی طرف سے ايک قرارداد کی منظوری کو غير ضروری قرار دے رہے ہيں اور اُس چار افرادی کميشن کی طرف توجہ دلا رہے ہيں جو اقوام متحدہ کے سيکريٹری جنرل بان کی مون نے تحقيقات کے لئے نامزد کيا ہے اور جس نے ابھی اپنا کام مکمل نہيں کيا ہے۔ ليکن اس تحقيقاتی کميشن کو بھی جس ميں ترکی اور اسرائيل بھی شامل ہيں، اسرائيل نے ابھی تک غزہ کے امدادی بحری جہازوں پر حملہ کرنے والے فوجيوں يا اُن افسران تک پہنچنے کی اجازت نہيں دی ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: کشور مصطفیٰ