فلسطینیوں سے بات چیت مشکل ہوگی: نیتن یاہو
23 اگست 2010اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ معاہدے کا امکان موجود ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے راستہ کافی مشکل ہے۔ نیتن یاہو کا مزید کہنا ہے کہ بات چیت میں کامیابی کا امکان اس بات پر ہے کہ ان میں اسرائیل کے مفاد کو کس حد تک تحفظ دیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطینی لیڈر شپ اسرائیل کو یہودیوں کی ریاست تسلیم کرے اور اسے اس ریاست کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرنا ہوگی۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان امن بات چیت کا سلسلہ بیس ماہ سے تعطل کا شکار ہے۔ اس مذاکراتی عمل کے دوبارہ شروع ہونے کا اعلان کچھ روز قبل امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے کیا تھا۔ ان مذاکرات کے لئے اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو بھی واشنگٹن مدعو کیا گیا ہے۔ فریقین کسی حتمی معاملے تک پہنچنے کے لئے ایک سال کی حد رکھنے پر بھی رضامند ہو گئے ہیں۔ دو ستمبرکے مذاکرات امریکی وزیر خارجہ کی موجودگی میں ہوں گے اور اس طرح یہ سہ فریقی قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما نے دو ستمبر کی بات چیت کی شروعات پر مصری صدرحسنی مبارک اور اردن کے شاہ عبداللہ کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے۔ چاروں مہمانوں سے امریکی صدر یکم ستمبر کو ملاقات کریں گے۔ مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے لئے قائم چہار فریقی گروپ کے خصوصی نمائندے ٹونی بلیئر کو بھی مذاکراتی کے شروع ہونے پر واشنگٹن دعوت دی گئی ہے۔
اتوارکو اسرائیلی کابینہ کی میٹنگ میں بینجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیل اور غیر فوجی فلسطین ریاست کے ساتھ معاہدے کے خواہاں ہیں۔ ان کے خیال میں اگر مذاکرات کے بعد ایسی فلسطینی ریاست کا وجود عمل میں آ جاتا ہے تو اس کا مطلب تنازعے کا خاتمہ ہے، کسی اور ذرائع سے اس ریاست کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔
اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کی قوم میں اوسلو معاہدے کے بعد ان سترہ سالوں میں امن کے حوالے سےکئی قسم کے شکوک جنم لے چکے ہیں۔ ان کے خیال جس صورت حال سے اسرائیلی گزرے ہیں اس کے تناظر میں ان شکوک و شبہات کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عدنان اسحاق