فیس بک صارفین کے ڈیٹا کی امریکا منتقلی، مقدمہ رکوانے کی کوشش
30 اپریل 2018آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن سے پیر تیس اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اس بہت بڑی امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کے ایک وکیل نے آج تصدیق کر دی کہ فیس بک کی انتظامیہ اپنے خلاف آئرش پرائیویسی کیس کو یورپی عدالت انصاف تک پہنچنے سے رکوانے کے لیے حرکت میں آ گئی ہے۔
'فیس بک پر لائیکس خریدنا حرام ہے‘
مہاجرین فیس بک کا ’شکار‘ بھی بن سکتے ہیں
میانمار کے سماجی کارکن کا غصہ، فیس بک متوجہ
اس طرح فیس بک اپنے خلاف ان ممکنہ عدالتی اقدامات سے بچنا چاہتی ہے، جن کے تحت اس کے لیے ان قانونی شقوں کا استعمال غالباﹰ ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے، جن کی بنیاد پر یہ کمپنی اپنے صارفین کا نجی ڈیٹا ابھی تک امریکا منتقل کر دیتی ہے۔
فیس بک کے قانونی مشیر پال گالاہر نے ڈبلن میں آئرش ہائی کورٹ کو بتایا کہ یہ امریکی کمپنی ایک حکم امتناعی کے ذریعے آئرش ہائی کورٹ کو اس امر سے روکنا چاہتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک مقدمہ سماعت کے لیے یورپی عدالت انصاف کو بھیج دے۔
پال گالاہر کے بقول ایسا اس لیے ضروری ہے کہ اس مقدمے کو یورپ کی اعلیٰ ترین عدالت میں بھیج دینے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ آئرش ہائی کورٹ کے بجائے آئرش سپریم کورٹ کو کرنا چاہیے اور آئرش سپریم کورٹ کو اس حوالے سے اپیل کی سماعت کے لیے وقت درکار ہو گا۔
مارک زوکر برگ کی امریکی سینیٹ میں پہلی پیشی
ڈیٹا اسکینڈل کی پوری ذمہ داری قبول کرتا ہوں، زکر برگ
دباؤ کے بعد فیس بک ’تبدیلیوں‘ پر مجبور
فیس بک کی ان کاوشوں کا پس منظر یہ ہے کہ آئرش ہائی کورٹ نے اسی مہینے اس حوالے سے ایک مقدمہ یورپی عدالت انصاف کو بھیج دینے کی سفارش کی تھی، جس میں فیس بک کی طرف سے اپنے صارفین کے پرسنل ڈیٹا کی امریکا منتقلی کے عمل کا تمام قانونی پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے گا۔ فیس بک اس ’کیس ٹرانسفر‘ کے خلاف اپیل دائر کر چکی ہے۔
اس مقدمے میں عدالت کو فیصلہ ایک پرائیویسی شیلڈ نامی معاہدے کی ان قانونی شقوں کے بارے میں کرنا ہے، جن کی بنیاد پر یہ سوشل میڈیا ویب سائٹ اپنے صارفین کے نجی ڈیٹا کو امریکا منتقل کر دیتی ہے، جہاں اس کمپنی کے ہیڈ کوارٹرز ہیں۔
م م / ع ا / روئٹرز