لاہور میں بیک وقت تین خودکش حملے،38 افراد ہلاک
2 ستمبر 2010پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے دوسرے سب سے بڑے شہر اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پولیس اور امدادی کارکنوں نے بتایا کہ رمضان کے مہینے میں یہ خونریز حملے ایک ایسے تعزیتی جلوس پر کئے گئے، جس میں ہزاروں شیعہ شہری شامل تھے۔
بعد ازاں اس جلوس کے مشتعل شرکاء نے ایک قریبی پولیس سٹیشن کو آگ لگانے کی کوشش بھی کی۔ اس پر پولیس اہلکاروں کو حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس بھی استعمال کرنا پڑی۔ جلوس کے شرکاء کے مطابق بیک وقت کئے جانے والے یہ تینوں خود کش حملے ان لمحات میں کئے گئے جب یہ جلوس اپنی منزل پر پہنچ کر ختم ہی ہوا تھا۔
ان حملوں کے بعد بم دھماکوں کی جگہ کا منظر اتنا خونریز تھا اور زخمیوں سمیت عام شرکاء اتنے مشتعل تھے کہ ان میں سے بہت سے افراد نے ان حملوں میں خود بھی مارے جانے والے تینوں حملہ آوروں میں سے دو کی جسمانی باقیات کو تلاش کر کے انہیں ڈنڈوں اور جوتوں کے ساتھ پیٹا۔
شہری انتظامیہ کے ایک اہلکار سجاد بھٹہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ان حملوں میں کم ازکم38 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی 180 کے قریب ہے، جن میں سے کئی ایک کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ سجاد بھٹہ کے بقول پولیس کے ماہرین کو خودکش حملوں کی جگہ سے تینوں حملہ آوروں کی جسمانی باقیات مل گئی ہیں اور دیگر شواہد ابھی جمع کئے جا رہے ہیں۔
لاہور میں مقامی سطح پر انتظامی امور کے نگران اعلیٰ سرکاری اہلکار خسرو پرویز نے بتایا کہ پہلا خود کش حملہ عین اس وقت کیا گیا جب شیعہ سوگواران کا یہ جلوس ابھی ختم ہوا ہی تھا۔ باقی دونوں حملے پہلے خود کش دھماکے کے چند ہی لمحے بعد کئے گئے۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ان دھماکوں کے بعد طیش میں آئے سوگواران نے، جو اس جلوس کے بہت سے شرکاء کی ہلاکت کے باعث مشتعل مظاہرین بن گئے تھے، پولیس اور صوبائی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور کہا کہ ملک میں سلامتی کی خراب صورت حال کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے اور صوبائی حکومت اس جلوس میں شامل شیعہ سوگواران کی جانوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان کو گزشتہ کئی برسوں سے اپنے ہاں مقامی طالبان اور کئی دیگر عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے خونریز حملوں کا سامنا ہے۔ لاہور میں بدھ کے روز کئے گئے خود کش حملے ملک میں حالیہ تباہ کن سیلابوں کے بعد سے ملک میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ قریب آٹھ ملین کی آبادی والا شہر لاہور دہشت گردوں کے خود کش حملوں کا نشانہ بنا ہے۔ اس شہر میں طالبان اور القاعدہ سے قربت رکھنے والے کئی عسکریت پسند گروپ وقفے وقفے سے بم حملے اور خونریز کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ صرف تین برسوں میں ایسے دہشت گردانہ بم حملوں میں ساڑھے تین ہزار کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں۔ یکم ستمبر بدھ کے روز کئے گئے خود کش حملوں سے قبل لاہور ہی میں دہشت گردی کی آخری بڑی کارروائی یکم جولائی کو دیکھنے میں آئی تھی۔ دو ماہ قبل اس کارروائی میں لاہور میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار کے احاطے اور اس سے ملحقہ مسجد میں کئے گئے دوہرے خود کش حملے میں کم ازکم 42 زائرین اور نمازی ہلاک جبکہ 175 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عابد حسین