مائیک پینس غیراعلانیہ دورے پر افغانستان میں
22 دسمبر 2017مائیکل پینس جمعرات کو افغانستان میں قائم امریکی فضائی اڈے بگرام اترے۔ صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان کا دورہ کرنے والے وہ سب سے اعلیٰ حکومتی عہدیدار ہیں۔ امریکی فضائیہ کے سی ون سیون طیارے کے ذریعے افغانستان پہنچنے والے پینس نے افغانستان میں تعینات پندرہ ہزار امریکی فوجیوں کا شکریہ ادا کیا۔ امریکی تاریخ کی یہ سب سے طویل جنگ اب 17 ویں برس میں داخل ہے۔
میٹِس کا پاکستان سے ’ڈُو مور‘ کا مطالبہ
صرف تین ملکوں میں امریکا کے ہزاروں فوجی تعینات ہیں
سکیورٹی فورسز پر افغان طالبان کے حملے طاقت کا اظہار
امریکا میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کے بعد امریکا نے افغانستان میں اپنی عسکری مداخلت کا آغاز کیا تھا، تاہم سترہ برس گزر جانے کے باوجود اب بھی یہ جنگ جاری ہے۔
پینس نے فوجیوں سے اپنے خطاب میں کہا، ’’امریکی عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں تعینات ہونے کے لیے کیسی ہمت اور حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ ہم افغانستان میں آزادی کی اس جنگ میں حقیقی پیش رفت دیکھ رہے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے افغانستان میں فضائی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ ہم اپنے افغان دوستوں کے ساتھ مل کر طالبان کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے مزید کارروائیوں کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس سے طالبان کی مالی مدد ہوتی ہے۔ پینس کا کہنا تھا، ’’اس پورے ملک میں ہم نے دہشت گردوں کے خلاف نئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ خود کو کیا کہتے ہیں اور وہ کہاں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اپنے مشن پر کبھی شک مت کیجیے گا۔ آپ کا یہاں افغانستان کا مشن، امریکی عوام کی سلامتی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان کے جنگ کی بابت امریکی عوام غیرمتوجہ ہو چکے ہیں اور پینس کے اس دورے کا مقصد امریکا میں کرسمس اور نئے سال کی تقریبات کے آغاز سے قبل عوام کی توجہ اس امریکی جنگ اور افغانستان میں تعینات فوجیوں کی جانب مبذول کرانا ہے۔
اپنے اس دورے میں پینس بگرام سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے کابل کے مرکز پہنچے، جہاں وہ افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے پاکستان کی بابت بھی امریکی صدر ٹرمپ کے موقف کو دھراتے ہوئے کہا، ’’پاکستان کو متبنہ کیا جا چکا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’پاکستان کو بتا دیا گیا ہے کہ امریکا کا ساتھ دے کر وہ بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے اور دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو پناہ دے کر وہ بہت کچھ کھو سکتا ہے۔‘‘