سکیورٹی فورسز پر افغان طالبان کے حملے طاقت کا اظہار
22 اکتوبر 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کی جانب سے شہروں پر حملوں کی بجائے سکیورٹی فورسز کے اڈوں پر حملے یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان کے لیے نئی حکمتِ عملی کا جواب اس انداز سے دے کر وہ اپنی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں۔
طالبان کا امریکا سے ’سات سو اکیاون بموں کا بدلہ‘
امریکی ڈرون حملے میں عمر خالد خراسانی کی ہلاکت
افغان طالبان کی لڑائی کا رخ اب سیدھا پولیس اور فوج کی طرف
منگل سے اب تک کئے جانے والے چار حملوں میں سے تین ایسے ہیں، جس میں عسکریت پسندوں کی جانب سے دھماکا خیز مواد سے لدی فوجی گاڑیاں استعمال کی گئی ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق ایک طرف تو اس کے ذریعے افغان سکیورٹی فورسز کے حوصلہ پست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری جانب عسکری کارروائیوں کو تقویت دینے کے لیے سکیورٹی فورسز کے چوری شدہ ہتھیاروں اور گاڑیوں کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
ان کارروائیوں سے طالبان کی لڑائی کی حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی بھی دکھائی دیتی ہے، یعنی اب وہ مختلف صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کی کوششوں کی بجائے براہ راست سکیورٹی تنصیبات پر حملے کر رہے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں طالبان دو مرتبہ شمالی شہر قندوز پر قبضہ کر چکے ہیں اور ہر بار انہیں پسپا کرنے کے لیے بڑی عسکری کارروائی کی گئی، جس میں امریکی فوج سے بھی مدد لی گئی۔
افغان امور پر نگاہ رکھنے والے بروکنگز انسٹیٹیوشن سے تعلق رکھنے والے سینیئر فیلو وینڈا فیلباب براؤن کے مطابق، ’’طالبان چاہتے ہی کہ صدر ٹرمپ کی افغانستان میں زیادہ فوجی موجودگی کی پالیسی کے جواب میں اپنی عسکری قوت کا اظہار کریں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اب وہ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کی کوشش نہیں کر رہے۔ وہ اپنے وسائل اس پر ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
رواں برس طالبان کی جانب سے سکیورٹی فورسز پر شدید نوعیت کے حملے کیے گئے ہیں، جن میں مزار شریف میں ایک فوجی اڈے پر بڑا حملہ شامل ہے، جس میں کم از کم 144 افراد مارے گئے۔
رواں ہفتے کیے جانے والے متعدد حملوں میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور یہ حملے ٹھیک اس وقت کیے گئے ہیں، جب افغان اور امریکی فورسز نے اپنی کارروائیوں میں تیزی پیدا کی ہے۔
رواں برس اگست میں امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کے لیے اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت طالبان کے حملوں میں تیزی کو روکنے کے لیے مزید امریکی فوجی افغانستان میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔