افغان طالبان کی لڑائی کا رخ اب سیدھا پولیس اور فوج کی طرف
19 اکتوبر 2017ہندو کش کی اس ریاست کے دارالحکومت کابل سے جمعرات انیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک مفصل تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کابل حکومت کے دستوں کے خلاف ہر سال موسم بہار میں اپنی عسکری کارروائیاں تیز تر کر دیتے ہیں۔
اس سال اپریل کے اواخر میں طالبان نے اپنے مسلح حملوں میں اضافے کے ساتھ جب ایک بار پھر اسی عسکری سوچ کا عملی مظاہرہ کیا، تو فرق یہ پڑا کہ اب جب کہ موسم خزاں بھی اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، نہ تو یہ حملےکم ہوئے اور نہ ہی ان کی ہلاکت خیزی۔
افغانستان: قندھار ميں طالبان کا بڑا حملہ، درجنوں فوجی ہلاک
افغان طالبان کے حملوں میں 72 افراد ہلاک، 200 سے زائد زخمی
مسقط مذاکرات: کیا افغان طالبان کے بغیر کامیاب ہوں گے؟
گزشتہ چند ماہ سے طالبان افغان فوج اور پولیس کی چوکیوں اور سکیورٹی دستوں کے تربیتی مراکز پر اپنے بڑے حملوں میں کافی تیزی لا چکے ہیں۔ اس دوران گزشتہ صرف ایک ہفتے کے دوران ہی مختلف صوبوں میں حکومتی دستوں پر جو بڑے اور زیادہ تر خود کش بم حملے کیے گئے، ان میں سوا سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں بنتی ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ امریکا پر گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے خلاف امریکا کی قیادت میں جو فوجی مداخلت کی گئی تھی، اس دوران کابل میں طالبان کی ملکی حکومت کو ختم ہونے میں تو چند ہفتے ہی لگے تھے۔ لیکن اس وقت سے ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں واقع اس ریاست میں جو جنگ جاری ہے، اسے اب 16 برس ہو چکے ہیں۔ یہی جنگ امریکا کی تاریخ کی طویل ترین غیر ملکی جنگ بھی بن چکی ہے۔
افغانستان: فضائی حملوں میں پچاس فیصد سے زائد شہری ہلاک
پاکستانی فوج کی کارروائی، غیر ملکی مغوی بازیاب
پاک افغان سرحدی دیہات میں دیوار برلن جیسی تقسیم کی تیاریاں
افغانستان کی موجودہ جنگ کی پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ دو ہزار ایک کے اواخر سے اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھنے والے طالبان کی صفوں میں ابھی تک تھکن کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اس کے برعکس طالبان مزاحمت کاروں نے تو پہلے ہی سے مسائل اور مشکلات کے شکار سرکاری دستوں کے خلاف اپنی جنگی کارروائیان اتنی تیز کر دی ہیں کہ عشروں کی خانہ جنگی سے تباہ حال اس ملک میں عدم تحفظ کا احساس مسلسل شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
دسمبر 2014ء میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی دستوں نے افغانستان میں اپنی باقاعدہ جنگی کارروائیاں ختم کر دی تھیں۔ اس کے بعد سے اس ملک میں طالبان کی عسکری طاقت اور ان کے حملوں کی ہلاکت خیزی دونوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
دوسری طرف فوج ہو یا پولیس، کابل حکومت کی سکیورٹی فورسز کے لیے ان کی اپنی سلامتی کے مسائل میں اضافہ اس لیے بھی ہوتا جا رہا ہے کہ یہ دستے اپنے ساتھیوں کی مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہلاکتوں سے بد دل بھی ہوتے ہیں، ان میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے بجائے اپنی ملازمتوں سے بھاگ جانے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے اور کرپشن کے ساتھ ساتھ تشویش کی ایک بات یہ بھی ہے کہ ان فورسز کے کئی ارکان ایسے بھی ہیں، جو کاغذ پر تو ملازمتیں کرتے ہیں مگر جن کا جسمانی طور پر کوئی وجود ہوتا ہی نہیں۔
افغانستان کی تعمیر نو اور فوجی امداد سے متعلق امریکی سرگرمیوں کے نگران احتسابی ادارے (SIGAR) کے مطابق 2016ء میں اس ملک میں طالبان عسکریت پسندوں یا دیگر شدت پسند تنظیموں کے حملوں میں مارے جانے والے سرکاری فوجیوں یا پولیس اہلکاورں کی تعداد 6,800 رہی تھی، جو 2015ء کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ تھی۔ 2017ء ابھی ختم نہیں ہوا لیکن اسی امریکی ادارے کو خدشہ ہے کہ اس سال افغان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد شاید گزشتہ برس سے بھی زیادہ رہے گی۔ اس خدشے کا سبب یہ ہے کہ اس سال موسم بہار میں طالبان کے حملوں میں سکیورٹی دستوں کو پہنچنے والا جانی نقصان ’دہلا دینے والی حد تک زیادہ‘ تھا۔ پھر سال رواں کی تیسری سہ ماہی اور چوتھی سہ ماہی میں اب تک ہر روز طالبان کے بڑے حملوں کی جو رپورٹیں ملتی رہی ہیں، ان میں بھی ہلاکتوں کی تعداد ایک دو نہیں بلکہ بہت سے واقعات میں درجنوں یا بیسیوں میں ہوتی ہے۔
افغانستان کی اسی موجودہ صورت حال کے حوالے سے کئی سکیورٹی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ افغان جنگ عنقریب ختم ہو سکے گی، فی الحال یہ کہنا وہاں کے زمینی حقائق کے عین منافی ہو گا۔