1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

230411 Klimadialog Metereologen

4 مئی 2011

موسموں پر تحقیق کرنے والے ماہرین زور دے رہے ہیں کہ موسم کے حال کی پیشین گوئی کرتے وقت زیادہ احتیاط برتی جانی چاہیے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں شک و شبہ رکھنے والوں کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ بات چیت کی جانی چاہیے۔

https://p.dw.com/p/118z2
تصویر: picture-alliance/dpa

آنے والا موسمِ خزاں کیسا رہے گا؟ آخری بار آنے والے شدید موسمِ سرما کا موسمیاتی تبدیلیوں کے عمل کے ساتھ کیا تعلق تھا؟ کیا زمینی درجہء حرارت میں اضافے کے سلسلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ واقعی کوئی کردار ادا کرتی ہے؟ یہ اور اِس طرح کے بہت سے سوالات عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔

پروفیسر ہنس فان شٹورش گیزتھاخت نامی شہر میں ہیلم ہلٹس سینٹر کے ساتھ ساتھ وہاں کی یونیورسٹی کے موسمیاتی کیمپس کے بھی سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ موسمیاتی تحقیق اور رائے عامہ کے درمیان ایک وسیع خلیج پائی جاتی ہے:’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ آب و ہوا پر تحقیق کرنے والوں کی ایک بھاری اکثریت کے خیال میں زمینی درجہء حرارت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ کہ اِس بات کا غالب امکان ہے کہ یہ انسانی اثرات کا نتیجہ ہے۔‘‘

Wetterkarte Tagesschau
تصویر: picture-alliance / dpa

تاہم دُنیا بھر میں رائے عامہ کے جائزوں کے نتائج ماہرینِ موسمیات کے اِس نقطہء نظر کے بالکل برعکس ہیں۔ مثلاً جرمنی میں موسمیاتی تبدیلیوں سے خوفزدہ شہریوں کی تعداد 2006ء اور 2010ء کے دوران تقریباً ساٹھ فیصد سے کم ہو کر چالیس فیصد رہ گئی۔ شٹورش کہتے ہیں کہ سائنسی طور پر بے بنیاد توقعات کو ہوا دیتے ہوئے آب و ہوا پر تحقیق کے شعبے نے اپنا اعتبار خود کھو دیا ہے۔

موسمیات کے ماہر اور ٹی وی پر موسم کا حال پیش کرنے والے سوین پوئلگر کے مطابق سیاستدان اور عام لوگ بھی ماہرینِ موسمیات کی جانب سے مسائل کے آسان حل تجویز کیے جانے کی توقع رکھتے ہیں اور ان توقعات کو پورا کرتے ہوئے یہ ماہرین کبھی کبھی حد سے آگے بھی گزر جاتے ہیں:’’اگر ہم سنجیدہ معلومات عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں، تو پھر مبالغہ آرائی بالکل اچھی بات نہیں ہے۔‘‘

’کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کردار ہے۔ یہ ایک اہم گیس ہے، یہ نہ ہو تو کوئی فوٹو سنتھسس نہیں ہو گا اور فوٹو سنتھسس کے بغیر کوئی آکسیجن نہیں ہو گی‘
’کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کردار ہے۔ یہ ایک اہم گیس ہے، یہ نہ ہو تو کوئی فوٹو سنتھسس نہیں ہو گا اور فوٹو سنتھسس کے بغیر کوئی آکسیجن نہیں ہو گی‘تصویر: AP

اس کی ایک مثال زمینی درجہء حرارت میں اضافے کے سلسلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کردار ہے۔ یہ ایک اہم گیس ہے۔ یہ نہ ہو تو کوئی فوٹو سنتھسس نہیں ہو گا اور فوٹو سنتھسس کے بغیر کوئی آکسیجن نہیں ہو گی۔ سوَین پوئلگر بتاتے ہیں:’’کاربن ڈائی آکسائیڈ موسموں کو تباہ نہیں کر رہی۔ موسم نہیں رہیں گے تو پھر بچے گا کیا؟ ہمیں اس طرح کی اصلاحات سے گریزکرنا چاہیے۔ ہمیں واضح طور پر اور سادہ زبان میں یہ بتانا چاہیے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کرتی کیا ہے؟ کہاں اِس کے اثرات اچھے اور کہاں برے ہوتے ہیں؟‘‘

وہ کہتے ہیں کہ ماہرینِ موسمیات کو تمام سوالات کے مخلصانہ جواب دینے چاہییں۔ ان ماہرین کی مبالغہ آرائی ہی کے باعث بہت سے لوگ اِن کی درست پیشین گوئیوں کو بھی شک و شبے کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔

سوَین پوئلگر کہتے ہیں کہ اگر ہم روزانہ چودہ ارب لیٹر تیل جلا دیتے ہیں جبکہ سورج ہمیں ہماری ضرورت سے چھ ہزار گنا زیادہ توانائی فراہم کرتا ہے، جس کا ہم پوری دُنیا میں محض 0,5 استعمال کر رہے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک بڑی غلطی ہے، جسے درست کیا جانا چاہیے۔

رپورٹ: فابیان شمٹ / امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں