مخالفت، ناپسندیدگی، تو؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی پھر بھی یقینی
4 مئی 2016امریکی ریاست انڈیانا میں ابتدائی انتخابات سے پہلے ری پبلکن پارٹی کے قدامت پسندوں کی جانب سے ’سٹاپ ٹرمپ‘ اور ’نو ٹرمپ‘ جیسے نعرے سامنے آ رہے تھے تاہم بالآخر اپنی صفوں میں تمام تر مخالفت کے باوجود اُنہتر سالہ ارب پتی ٹرمپ کو انڈیانا میں اپنے حریفوں ٹَیڈ کروز اور جان کیسک پر واضح سبقت حاصل ہوئی۔ اب وہ ایک بھی اور ریاست میں انتخابات جیتنے کی صورت میں جولائی کی پارٹی کانگریس میں خود بخود صدارتی امیدوار بن جائیں گے۔ انڈیانا میں کامیابی کے بعد ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب میں کہا:’’ہم نومبر میں جیتیں گے۔‘‘
انڈیانا میں شکست کے بعد ٹرمپ کے سخت ترین حریف ٹَیڈ کروز نے اپنی انتخابی مہم ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ پنتالیس سالہ ٹَیڈ کروز کو ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی کے راستے میں واحد بڑی رکاوٹ تصور کیا جا رہا تھا۔ انڈیانا میں اپنے حامیوں سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اُنہوں نے اور اُن کی ٹیم نے اپنی پوری کوشش کی لیکن ووٹرز نے ایک دوسرے ہی راستے کا انتخاب کیا اور یوں بوجھل دل کے ساتھ انہوں نے اس صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اعلان کے وقت ٹَیڈ کروز کے والدین اور اُن کی اہلیہ ہائیڈی بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ اگر ٹَیڈ کروز صدارتی امیدوار بننے میں کامیاب ہو جاتے تو وہ ہسپانوی جڑیں رکھنے والے پہلے امیدوار ہوتے۔
ٹَیڈ کروز کے دستبردار ہونے کے بعد اب ری پبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں صرف اوہائیو کے گورنر جون کیسک باقی رہ گئے ہیں تاہم اب اُن پر بھی ٹَیڈ کروز ہی کی تقلید کرنے کے لیے دباؤ میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق ری پبلکن پارٹی کے اندر ٹرمپ مخالف حلقے اس لیے ناکام ہوئے کہ ایک تو اُن کے درمیان آپس میں رابطے کم تھے اور دوسرے اُن کے درمیان ٹرمپ کے حریف کسی ایک سیاستدان کے نام پر اتفاق نہ ہو سکا۔ اگرچہ یہ حلقے بظاہر اب بھی آخری وقت تک ٹرمپ کی نامزدگی رُکوانے کی کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں تاہم درپردہ وہ پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ انڈیانا کے نتائج ہی فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔
ڈیموکریٹک پارٹی میں ہلیری کلنٹن کو اپنے حریف سینیٹر برنی سینڈرز کے مقابلے میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم کلنٹن کا صدارتی امیدوار بنایا جانا پھر بھی یقینی دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ انڈیانا کے ابتدائی انتخابات سے پہلے ہی نوّے فیصد مندوبین کی حمایت حاصل کر چکی ہیں۔