مردم شماری کا آغاز، سروے فارم میں ’ٹرانس جینڈر کا کالم غائب‘
15 مارچ 2017’19 سال بعد ہم کتنے ہیں اور ہمیں کیا چاہیے‘ کے نعرے کے تحت پاکستان میں شروع ہونے والی مردم شماری پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے اعتراضات کے باوجود ادارہ شماریات نے سپریم کورٹ کے حکم کے باعث جاری کردہ شیڈول میں ردوبدل نہیں کیا ہے۔
اس مرتبہ حکومت نے کہا تھا کہ مردم شماری میں ٹرانس جینڈر افراد کو بھی شمار کیا جائے گا لیکن جاری کردہ سروے فارمز میں ایسے افراد کی گنتی کے لیے کوئی کالم نہیں ہے۔ قبل ازیں مقامی میڈیا نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے تصدیق کی تھی کہ ٹرانس جینڈر افراد کی مردم شماری کی خاطر سروے فارم میں ایک خصوصی کالم ہو گا۔
پاکستان میں مردم شماری، ٹرانس جینڈر بھی شمار کیے جائیں گے
پاکستان: خواجہ سراؤں کو مردم شماری میں شامل کیا جائے گا
دنیا کی آبادی اندازوں سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، اقوام متحدہ
کراچی میں ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار رفعت سعید نے بتایا ہے کہ حکومتی سطح پر کہا جا رہا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد جنس کے کالم میں ایک تیسرا کالم خود ہی بنا سکتے ہیں لیکن سروے فارم میں ایسا کالم نہیں ہے۔
قبل ازیں البتہ کیا گیا تھا کہ عدالتی فیصلوں کے بعد ٹرانس جینڈر افراد کو ایک الگ کیٹیگری میں شمار کرنے کی خاطر سروے فارمز پرنٹ کر لیے گئے ہیں۔ بتایا گیا تھا کہ مردم شماری کے سروے پیپرز کے مطابق شمار کنندگان سے پوچھا جائے گا کہ وہ مرد ہیں، عورت ہیں یا ٹرانس جینڈر۔
پندرہ مارچ بروز بدھ کراچی میں صدر مملکت ممنون حسین نے اسٹیٹ گیسٹ ہاوس میں اور لاہور میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے نمبر شمار کر کے مردم شماری کے عمل کا باقاعدہ افتتاح کیا تاہم مردم شماری پر سب سے پہلے تحفظات کا اظہار بھی کراچی میں سب سے زیادہ نمائندگی رکھنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے کیا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے تحفظات
ڈاکٹر فاروق ستار نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف کا اختیار کیا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں مردم شماری کے لیے بنائے گئے بلاکس دیہی علاقوں کے مقابلے میں کم ہیں، لہذا اس میں اضافہ کیا جائے کیونکہ اس عمل سے شفافیت متاثر ہو رہی ہے۔
مردم شماری کے لیے مختلف محکموں کے ملازمین کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں تاہم دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر سکیورٹی کے لیے پولیس رینجرز اور فوج کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں۔
پہلے مرحلے میں عملہ تین روز کے اندر پنجاب کے سولہ، سندھ کے آٹھ، خیبر پختونخوا کے سات اور بلوچستان کے پندرہ اضلاع کے علاوہ قبائلی علاقہ جات کی سات ایجنسیوں، پاکستان زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے پانچ پانچ اضلاع میں خانہ شماری مکمل کرے گا۔
دوسرے مرحلے کے تحت 25 اپریل سے سندھ اور پنجاب کے اکیس اکیس، خیبرپختونخوا کے اٹھارہ، بلوچستان کے سترہ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سات، کشمیر اور گلگت بلتستان کے باقی ماندہ پانچ پانچ اضلاع میں خانہ شماری مکمل کی جائے گی۔
مبصرین کے مطابق مردم شماری کے حوالے سے سب سے زیادہ تحفظات اور تحفظات سندھ اور کراچی میں ہی سامنے آئیں گے کیونکہ آبادی کا سب سے زیادہ دباؤ سندھ خصوصا کراچی پر ہی ہے اور شہری اور دیہی علاقوں کی تقسیم کے باعث بھی شفافیت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں گزشتہ چند دہائیوں میں نہ صرف ملک بھر بلکہ خطے کے دیگر ممالک سے کراچی پر آبادی کا دباؤ بہت زیادہ رہا ہے۔ تین ملین اٖفغان باشندوں کے علاوہ لاکھوں کے تعداد میں بنگالی برمی اور بھارتی شہری بھی کراچی اور سندھ کے متعدد شہری علاقوں میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ کراچی میں پشاور، کابل اور جلال آباد سے تعلق رکھنے والے پشتون بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں اور اس سے آبادی کا توازن بگڑ گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق کراچی میں بہت سے علاقے ایسے ہیں، جہاں رہنے والوں کو کئی برسوں سے شناختی کارڈ ہی جاری نہیں کیے جا رہے ان علاقوں میں نادرا کے دفاتر بند کردیے گئے ہیں جبکہ نادرا ملازمین نے ذاتی مفاد کی خاطر ماضی قریب میں جانے کتنے ہی افغان، بنگالی، بھارتی اور ایرانی باشندوں کو قومی شناختی گارڈ جاری کر رکھے ہیں۔
سینئر صحافی کے آر فاروقی کہتے ہیں کہ مردم شماری کے لیے تیار کیے گئے سروے فارموں میں نہ تو خواجہ سرا کے لیے کالم ہے اور نہ ہی معذرو افراد کے لیے جبکہ 1998 میں ہونے والی مردم شماری میں یہ دونوں کالم موجود تھے اور اسی کو جواز بنا کر معذور افراد نے بھی سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے اور عدالت نے درخواست پر حکومت کو نوٹس بھی جاری کردیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس فارموں پر اعتراض اٹھایا گیا ہے وہ عملے کو تقسیم بھی ہوچکے ہیں تو اب کیا یہ فارم تبدیل کیے جائیں گے یا ایسی صورت میں مردم شماری تاخیر کا شکار ہونے کا خدشہ موجود ہے۔