1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کا ’کلیئرنگ آپریشن‘ ملک سے انخلا پر پابندی

28 فروری 2022

طالبان نے افغان شہریوں کے اپنے ملک سے انخلا پر پابندی عائد کر دی ہے۔ افغان فورسز نے ملک گیر سطح پر گھر گھر جا کر’کلیئرنگ آپریشن‘ شروع کر دیا ہے۔ طالبان کے مطابق افغان خواتین کسی مرد کے بغیر ملک سے باہر نہیں جا سکتیں۔

https://p.dw.com/p/47j8k
100 Tage US-Abzug aus Afghanistan | Samira Safari
تصویر: Samira Safari/dpa/picture alliance

طالبان حکومت کے مطابق کسی افغان باشندے کو ملک سے نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی افغان فورسز نے پیر 28 فروری سے گھر گھر جا کر اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ افغان باشندے اپنا ملک چھوڑ کر بيرون ممالک کی طرف نہ جا سکیں، 'کلیئرنگ آپریشن‘ شروع کر دیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے اتوار کی شام دیر گئے ان پابندیوں کا اعلان کیا گیا۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ اس پابندی کا مقصد افغان باشندوں کو بیرون ملک پیش آنے والی مشکلات سے بچانا ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کے بقول آئندہ ملک چھوڑ کر کسی بیرون ملک کی طرف جانے کی کوشش کرنے والے افغان باشندوں کے پاس جب تک کوئی ٹھوس ' عذر‘ نہیں ہو گا، انہیں امیگریشن پر ہی روک لیا جائے گا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے اتوار کو دیر گئے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا،''مجھے واضح طور پر کہنا ہے کہ وہ افراد جو اپنے اہل خانہ سمیت ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور ان کے پاس اس انخلاء کا کوئی عذر بھی نہیں ہوتا، ہم انہیں ملک سے نکلنے نہیں دیں گے۔ انہیں روک ليا جائے گا۔‘‘

واشنگٹن نے افغانستان کو امدادی رقوم منتقل کرنے کی اجازت دے دی

پابندی کا اطلاق ہر کسی پر

طالبان حکومت کی طرف سے اعلان کردہ اس پابندی اور افغان فورسز کے 'کلیئرنگ آپریشن‘ سے تمام افغان باشندے متاثر ہوں گے۔ خواتین بھی اُس وقت تک بیرون ملک نہیں جا سکتیں جب تک ان کے ساتھ کوئی مرد رشتہ دار نہ ہو۔ یہ پابندیاں گزشتہ برس متعارف کرائی گئی پابندیوں کا ہی سلسلہ ہيں تاہم اس وقت اندرون ملک یعنی شہروں اور قصبوں کے درمیان بھی خواتین کے تنہا سفر پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

Arte-Dokumentation "Leben unter den Taliban"
شہروں اور قصبوں کے درمیان بھی خواتین کے تنہا سفر پر پابندی عائد ہےتصویر: arte

ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا، ''جو خواتین بیرون ملک سفر کرنا چاہتی ہیں، ان کے ساتھ ان کا ایک محافظ ہونا لازمی ہے۔ یہ شریعت کا حکم ہے۔‘‘ طالبان کی طرف سے یہ اعلانات ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب گزشتہ ہفتے کے اختتام پر افغانستان میں اغوا کاروں، چوروں اور لٹیروں کی تلاش کے لیے آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ نئی سفری پابندیاں ان ہزارہا افغانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں، جنہیں طالبان کی 20 سالہ شورش کے دوران امریکی زیر قیادت غیر ملکی افواج یا دیگر مغربی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کے بعد بیرون ملک پناہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 

افغانستان کی مدد کی کوششیں کامیاب کیوں نہیں ہو رہیں؟

سقوط کابل اور انخلاء کا عمل

طالبان کے کابل پر قبضے کے دو ہفتے بعد یعنی 31 اگست تک افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا عمل جاری رہا تھا۔ اس دوران 120,000 سے زیادہ افغان باشندوں اور دوہری شہریت رکھنے والوں کو افغانستان سے نکالا گیا تھا۔

 ایسے ہی دیگر ہزاروں باشندے اب بھی افغانستان میں موجود ہیں، تاہم وہ وہاں سے نکلنے کے لیے بے چین ہیں اور خدشہ ہے کہ طالبان انہیں ''غیر ملکی عناصر کا شریک کار یا مدد گار 'گردانتے ہوئے نشانہ بھی بنا سکتے ہیں۔‘

اس سلسلے میں فضائی راستے سے آخری باضابطہ انخلاء یکم دسمبر کو عمل میں آیا تھا، حالانکہ پاکستان کی طرف بذریعہ سڑک قافلے پچھلے ہفتے تک بڑھتے دکھائی دیے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغان باشندوں اور دیگر افراد کی بیرون ملک روانگی پر پابندی کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ طالبان کو ہزاروں افغان شہریوں کے بیرون ملک 'بہت خراب حالات کا سامنا کرنے‘ کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔

پاکستان نے عالمی مالیاتی بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے طالبان پر پابندیاں عائد کر دیں

Afghanistan Erster ziviler Evakuierungsflug seit US-Abzug aus Kabul gestartet
سقوط کابل کے بعد افغانستان سے پہلا سول انخلاتصویر: Wakil Kohsar/AFP

انہوں نے کہا، ''ان باشندوں کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لہٰذا ان کا بیرون ملک سفر اس وقت تک روک دیا جائے گا جب تک ہمیں یہ یقین دہانی نہیں ہو جاتی کہ ان کی زندگیاں بیرون ملک جا کر خطرے میں نہیں پڑ جائیں گی۔‘‘ طالبان کے ترجمان نے مزید کہا کہ طالبان نے کبھی بھی انخلاء کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ ذبیح اللہ مجاہد کے بقول،''ابتدائی طور پر ہم نے کہا تھا کہ امریکی ایسے لوگوں کو لے جا سکتے ہیں جن کے بارے میں انہیں کوئی تشویش ہے لیکن یہ ہمیشہ کے لیے کیا جانے والا وعدہ نہیں تھا۔‘‘

افغانستان کی اقتصادی زبوں حالی

اگست میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے، افغانستان اقتصادی بحران میں ڈوب گیا ہے، یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جن کا سابق حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، باہر نکلنے میں ہچکچاہٹ کا سامنا ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ کام کی تلاش میں یا پناہ کی امید میں یورپ پہنچنے کی کوشش میں پڑوسی ملک ایران جانے کی جدو جہد کرتے ہیں۔

امریکا نے افغانوں کے بیرون ملک 7 بلین ڈالر کے اثاثوں کو ضبط کر لیا ہے۔ جس میں سے اب نصف انسانی امداد کے لیے مختص کیا گیا ہے اور طالبان کو اس عمل میں سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ بقیہ آدھی رقم کو 11 ستمبر 2001 ء کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو بطور معاوضہ دینے کے لیے فنڈ کے طور پر مختص کیا گیا ہے۔

اس سال اب تک پاکستان، ایران سے سات لاکھ افغان باشندے واپس

Afghanistan Bundeswehreinsatz endet
گزشتہ سال افغانستان سے جرمن فوج کا بھی مکمل انخلا عمل میں آیا تھاتصویر: Sanaullah Seiam/dpa/picture alliance

 ' کلیئرنگ آپریشن‘

''کلیئرنگ آپریشن‘‘ نے خاص طور پر بہت سے ان لوگوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے، جو سابقہ ​​مغربی حمایت یافتہ حکومت یا امریکا کی زیر قیادت غیر ملکی افواج کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ طالبان انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔ رہائشیوں نے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز پوسٹ کی ہیں، جن میں ان گھروں کو دکھایا گیا ہے، جو ان کے بقول 'تلاشی‘ کے دوران کوڑے دان بنا دیے گئے تھے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ حکام نے آپریشن کے دوران اب تک دو مغوی افراد کو تلاش کیا ہے، اور دو نوعمر لڑکیوں کو بھی آزاد کرایا ہے جنہیں تہہ خانے میں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہلکے اور بھاری ہتھیار، دھماکہ خیز مواد، ریڈیو آلات اور ڈرونز کے ساتھ ساتھ فوج یا حکومت کی گاڑیاں بھی قبضے میں لے لی گئی ہیں۔ چھ افراد کے اسلامک اسٹیٹ گروپ کے رکن ہونے کا شبہ ہے، نو اغوا کاروں اور 53 ’ پیشہ ور چوروں‘ کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔‘‘ ذبیح اللہ مجاہد نے تاہم زور دیتے ہوئے کہا، ''ہم کابل کے رہائشیوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ یہ کارروائیاں عام لوگوں کے خلاف نہیں ہیں۔‘‘ مزید برآں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا، ''شہر کے مکینوں کو یقین ہونا چاہیے کہ یہ تلاشی کی کارروائی نہایت احتیاط سے جاری ہے۔‘‘

 

ک م/ ع س) اے ایف پی(