مستحکم افغانستان پاکستان کے حق میں ہے، جرمن ارکان پارلیمان
29 جولائی 2022پاکستان کے دورے پر پہنچے ہوئے جرمن ارکان پارلیمان اسٹیفن کوئٹر اور ڈیٹمار فریڈہوف نے آج جمعہ 29 جولائی کو کراچی میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی قبر پر پھول چڑھائے۔
اپنے دورہ پاکستان کے حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے کا ایک اہم ملک ہے اور اس دورے کے دوران انہوں نے کئی اہم معاملات پر حکام سے بات چیت کی ہے: ''جرمنی اور پاکستان کے روابط کو مضبوط کرنے کے علاوہ ہمیں افغانستان کی صورتحال میں بھی دلچسپی ہے کیونکہ وہاں کی عوام کو اس وقت انتہائی تشویشناک صورتحال کا سامنا ہے اور افغانستان کی صورتحال کا اثر براہ راست پاکستان پر پڑتا ہے۔‘‘
ان دونوں ارکان کا تعلق اسلام اور مہاجرین کی مخالفت کرنے والی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی یا آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ سے ہے۔ ڈیٹمار فریڈہوف نے بتایا کہ وہ اسلام آباد اور پشاور سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے ہیں، ''اس دوران ہم نے پاکستان کے راستے افغانستان سے ہونے والے انخلاء کے عمل کا جائزہ بھی لیا۔ ہم افغانستان بھی جانا چاہتے تھے مگر وہاں کے مخدوش حالات کی وجہ سے فی الحال یہ ممکن نہیں ہو سکا۔‘‘
گزشتہ برس 15 اگست کو افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد وہاں سے متعدد بین الاقوامی اداروں نے اپنے مقامی ملازمین کو افغانستان سے باہر نکالا تھا اور ان میں ڈوئچے ویلے بھی شامل تھا۔ فریڈہوف نے ڈی ڈبلیو کی ان کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہیں گزشتہ برس کے دوران ہونے والی ان تمام کوششوں کا بخوبی کا علم ہے، ''ہم جمعے کی علی الصبح دو بجے اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر موجود تھے اور ہم نے دیکھا کہ کس طرح 221 افغان شہری جہاز میں سوار ہو کر جرمنی کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم افغان شہریوں کی ہر طرح سے مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
اسٹیفن کوئٹر کے بقول کراچی کی کئی فیکڑیوں میں جرمن کمپنیوں کے لیے مصنوعات تیار کی جاتی ہیں اور انہوں نے ایک ایسی فیکڑی کا دورہ بھی کیا ہے، ''تحفظ ماحول، ملازمین کی فلاح وبہبود اور منصفانہ اجرت جیسے موضوعات ہمارے لیے اہم ہیں اور انہی پر ہم نے توجہ مرکوز کی۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے اس فیکٹری کا دورہ کیا ہے، جو کک کے لیے ملبوسات تیار کرتی تھی تو ان کو جواب نفی میں تھا۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع ملبوسات تیار کرنے والی ایک فیکڑی میں آگ لگنے کے سبب کم از کم 260 مزدور ہلاک ہوئے تھے۔ یہ واقعہ ستمبر 2012ء کا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کی اس فیکڑی میں جرمن کمپنی کِک کے لیے کپڑے تیار کیے جاتے تھے۔
ابھی حال میں میں جرمن وزیر خارجہ انا لینا بیئر بوک اپنے دورہ پاکستان کے دوران کورونا کا شکار ہو گئی تھیں اور انہیں اپنا دورہ مختصر کرنا پڑ گیا تھا۔ اس تناظر میں جب اسٹیفن کوئٹر سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں کوئی ڈر نہیں لگا؟ '' ہمیں کسی طرح کا خوف نہیں ہے۔ میں انتظامیہ اور خاص طور پر پاکستانی فوج کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہمیں ہر طرح کی سہولت فراہم کی۔ پاکستان اور افغنستان کی سرحد کے دورے کے دوران بھی ہماری سلامتی کا بھرپور انتظام کیا گیا۔‘‘
اسٹیفن کوئٹر اور ڈیٹمار فریڈہوف کے مطابق اس دورے کے دوران ان کی پاکستانی ارکان پارلیمان کے علاوہ وزارت داخلہ اور خارجہ کے حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اوران کا یہ دورہ انتہائی مصروف رہا۔
جرمنی کی اسلام اور مہاجرین مخلاف جماعت سے تعلق رکھنے والے یہ دونوں جرمن ارکان پارلیمان اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان سیاحت کے لیے ایک بہت ہی پرکشش اور دلچسپ ملک ہے۔