مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کو ایک اور دھچکا
8 دسمبر 2010گزشتہ روز امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل سے تعمیراتی منصوبوں کو دوبارہ سے بند کرنے کا مطالبہ ملتوی کر رہا ہے۔ امریکہ کے اس فیصلے سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن مذاکرات کو مزید نقصان پہنچے گا۔ امریکی دفتر خارجہ کے ایک ترجمان فلپ کرولی نے ایک حالیہ بیان میں کہا، ’مشرقی یروشلم میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے نئے منصوبے پر پہلے کی طرح کی عارضی پابندی عائد کرنے کا اصرار اسرائیل اور فلسطین کے مابین معاہدے کے ایک ڈھانچے کی تیاری کے لئے کوئی ٹھوس بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ امریکہ کا یہ فیصلہ اُس کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے ضمن میں اسٹریٹیجی یا حکمت عملی کی کسی تبدیلی کی نشاندہی نہیں ہے۔
کرولی نے کہا،ضرورت اس امر کی ہے کہ فریقین کے مابین منقطع امن مذاکرات کو دوبارہ سے عمل میں لانے کے لئے نئی تدابیر اختیار کی جائیں۔ کرولی نے کہا ہے کہ اگلے ہفتے کے دوران اسرائیل اور فلسطین کے مذاکرات کار واشنگٹن میں ملاقات کریں گے۔ انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ مشرق وسطیٰ امن مذاکرات اسرائیل اور فلسطین کے مابین براہ راست ہونے کے بجائے بالواسطہ طور پر ہوں گے۔
امریکی حکومت کے ان تازہ بیانات کی فلسطینی حکام نے سخت مذمت کی ہے اور اسرائیل کی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی حکومت کو امن مذاکرات کے جمود کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ راملہ میں ایک فلسطینی ترجمان نے کہا، ’اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے مشرق وسطیٰ میں امن کے امکانات کو تباہ کیا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے امریکہ کو کوئی واضح جواب دینے سے انکارکا مقصد مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبوں کو بند کرنے سے گریز کرنا ہےاور اس طرح مشرق وسطیٰ میں امن کی کوششیں بھی ناکام ہو گئی ہیں‘۔
امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان فلپ کرولی کے مطابق فریقین کے مابین بات چیت اُسی سطح پرآ گئی ہے، جہاں وہ مئی کے مہینے تک تھی۔ اُس وقت مشرق وسطیٰ کے لئے متعینہ خصوصی امریکی مندوب جارج مچل مسلسل اسرائیل اور فلسطین کے مابین براہِ راست مذاکرات کی کوششوں میں مصروف تھے اور انہوں نے مشرق وسطیٰ کے متعدد دورے بھی کئے تھے۔
مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے کی موجودہ صورتحال کا تعلق کئی دشوار معاملات سے ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم مسئلہ اسرائیل کی سکیورٹی اور مستقبل کی ایک فلسطینی ریاست کی سرحدوں کے تعین، فلسطینی پناہ گزینوں کی صورتحال اور مقدس شہر یروشلم کی حیثیت کا ہے، جس کے بارے میں دونوں فریقوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اُن کا دارالحکومت ہے۔ محمود عباس نہ صرف غرب اُردن بلکہ مشرقی یروشلم میں بھی یہودی بستیوں کی تعمیر بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جسے فلسطینی اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔
تقریباً 20 ماہ کی پس و پیش کے بعد گزشتہ ستمبر میں نیتن یاہو اور محمود عباس نے ایک سال کے اندر اپنے درمیان پائے جانے والے اہم ترین تنازعات کے حل کے لئے بات چیت پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم امریکی ثالثی میں ہونے والے براہ راست مذاکرات اس سال ستمبر میں اُس وقت منقطع ہو گئے، جب غرب اُردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر لگی پابندی کے دس ماہ کی میعاد مکمل ہو گئی۔ اُس کے بعد اس پابندی کی توسیع ہونا تھی تاہم اسرائیل نے اس سے انکار کرتے ہوئے تعمیری منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
دریں اثناء فلسطینیوں نے کہا ہے کہ وہ اُس وقت تک مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع نہیں کریں گے، جب تک یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہے گا۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی