مشرق وسطیٰ میں مذاکرات کے امکانات خطرے میں
11 مارچ 2010اس سے قبل عرب لیگ نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین بالواسطہ مذاکرات کی حمایت ترک کرنے کا عندیہ دیا۔ عرب لیگ کی مشرق وسطیٰ میں قیام امن سے متعلق کمیٹی نے اس بات کا اعادہ بدھ کو قاہرہ میں ہوئے اہم اجلاس میں کیا۔
عرب ممالک اسرائیل کی جانب سے عین ایسے وقت میں مزید متنازعہ یہودی آباد کاری کے اعلان پر شدید برہم ہیں جب فلسطینیوں نے پیشگی شرائط کو ایک طرف رکھتے ہوئے بالواسطہ مذاکرات کی حامی بھری ۔
عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے لیگ کی جانب سے تین مارچ کو بلواسطہ مذاکرات کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ عرب لیگ کے مطابق منگل کو سولہ سو مزید مکانات کی تعمیر کا اسرائیلی اعلان ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل مذاکرات کی بحالی کے لئے سنجیدہ نہیں۔
دوسری طرف خطے میں موجود امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق امریکی مؤقف دہراتے ہوئے زور دے کر کہا ہے کہ جو بھی فریق امن کے امکانات کو متاثر کرے گا اس سے حساب لیا جائے گا۔ بائیڈن بدھ کو فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس اور وزیر اعظم سلام فیاض سے ملے جبکہ جمعرات کو ان کی اردن کے شاہ عبداللہ دوئم سے ملاقات کا امکان ہے۔
رملا میں محمود عباس سے ملاقات کے بعد امریکی نائب صدر نے یہودی آباد کاری کے نئے منصوبے کے اعلان کی مذمت کی اور کہا کہ فریقین پر لازم ہے کہ وہ مذاکرات کے لئے سازگار ماحول پیدا کریں۔ جو بائیڈن کے بقول : ’’امن کے حصول کے لئے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو ہمت اور حوصلے کا تاریخی مظاہرہ کرنا ہوگا، امریکہ ہمیشہ ان کا ساتھ دے گا جو قیام امن کی خاطر خطرات مول لیں گے‘‘۔
فلسطینی وزیر اعظم محمود عباس نے اسرئیلی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہی وقت ہے دو ریاستی فلسفے کی بنیاد پر امن کے حصول کا۔ ایک اسرائیلی ریاست اور ایک خودمختار فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت 1967ء کی سرحدوں کے مطابق یروشلم ہو۔
مشرقی یروشلم پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا تھا جس پر اب وہ ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت کا درجہ دیتے ہیں۔ اس متنازعہ خطے میں مزید مکانات تعمیر کرنے کے اسرائیلی اعلان کی بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھی مزمت کی گئی ہے۔
چونکہ اس خطے پر اسرائیلی قبضے کو بین الاقوامی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا اسی لئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے یہاں آباد کاری کے اسرائیلی اعلان کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے اسرائیلی حکومت پر فیصلہ واپس لینے کے لئے زور دیا ہے۔ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل امر موسیٰ نے اس اعلان کو عربوں کی تذلیل سے تعبیر کیا ہے۔
فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین غزہ جنگ کے بعد سے منقطع مذاکرات کی بحالی کی کوششوں میں چونکہ امریکہ سرفہرست ہے لہذا اس وقت تمام تر عالمی برادری کی توجہ جو بائیڈن کے حالیہ دورہ ء مشرق وسطیٰ پر ہیں۔
رپورٹ شادی خان سیف
ادارت کشور مصطفیٰ