مشکل پڑی تو البغدادی غائب
9 مارچ 2017
امريکا کے ايک اعلیٰ دفاعی اہلکار نے دعویٰ کيا ہے کہ ابو بکر البغدادی موصل ميں پھنس جانے کے خوف کی وجہ سے فرار ہو گئے ہيں۔ اس اہلکار کے بقول البغدادی ايک اہم شاہراہ پر عراقی فوج کی جانب سے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے سے پہلے ہی فرار ہو گئے تھے۔ يہ پيش رفت مارچ کے آغاز ميں ہوئی تھی۔ انہوں نے بتايا، ’’حملے سے قبل البغدادی موصل ميں ہی تھے۔ وہ موصل اور تل افر کو ملانے والی شاہراہ پر قبضے سے قبل فرار ہوئے۔ امکاناً انہوں نے اپنے حاميوں کو ہدايات دی ہوں گی اور لڑائی کا کام مقامی کمانڈروں پر چھوڑ ديا ہو گا۔‘‘
موصل شہر کو جہاديوں کے قبضے سے چھڑانے کے ليے عراقی فوج نے کارروائياں جاری رکھی ہوئی ہيں اور اسے کئی محاذوں پر کاميابیاں حاصل ہو رہی ہيں۔ شہر کے مشرقی حصے پر قبضے کے بعد اب بغداد حکومت کے فوجی دستے مقابلتاً چھوٹے مگر زيادہ آبادی والے مغربی حصے پر نگاہيں لگائے بيٹھے ہيں۔ شہر کو دہشت گرد تنظيم کے قبضے سے چھڑانے کے ليے باقاعدہ آپريشن گزشتہ برس اکتوبر ميں شروع کيا گيا تھا جس ميں ہزاروں پوليس اہلکار اور فوجی حصہ لے رہے ہيں۔ حاليہ دنوں ميں عراقی فوج نے مغربی موصل کے بھی متعدد محلوں سے دہشت گردوں کو پسپا کر ديا ہے۔ صوبائی حکومت کا ہيڈ کوارٹر، ايک اہم عجائب گھر اور بدنام زمانہ بدوش نامی قيد خانہ جیسے مقامات پر اب عراقی دستے قابض ہيں اور شدت پسند وہاں سے فرار ہو چکے ہيں۔
عراقی فوج کے خصوصی ’ريپڈ رسپانس ڈويژن‘ کے ليفٹيننٹ کرنل عبدل امير المحمداوی نے بتايا کہ ان کے دستے آج بروز جمعرات شہر کے مغربی حصے کے محلوں ميں مکانات اور دکانوں کا معائنہ کر رہے ہيں تاکہ وہاں چھپائے گئے بم يا ديگر اقسام کے آتش گير مادوں کو ہٹايا جا سکے۔ فوجی اہلکار دشمن کے نشانچيوں کو بھی تلاش کر رہے ہيں۔ علاوہ ازيں ہزاروں شہری اب بھی موصل کے ان علاقوں ميں پھنسے ہوئے ہيں، جن پر تاحال داعش کا ہی قبضہ ہے۔ پچيس سالہ سرکاری ملازم عبدل زراق احمد نے بتايا کہ داعش کے جنگجو شہريوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہيں۔
امريکی دفاعی اہلکار کے مطابق داعش اب موصل اور الرقہ سے آگے کا سوچ رہی ہے۔ ان کے بقول اس وقت اسلامک اسٹيٹ کے قريب پندرہ ہزار ارکان شام اور عراق ميں موجود ہيں۔ ان ميں سے لگ بھگ ڈھائی ہزار موصل اور تل افر ميں جبکہ چار ہزار الرقہ ميں موجود ہيں۔