مفاہمت کا ’بادشاہ‘ مشکل میں؟
27 دسمبر 2018سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی کے موقع پر لاڑکانہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا،’’لاڈلے کے پھٹے ڈھول سوائے ٹی وی پر بکواس کرنے کے کچھ اور نہیں کر سکتے، پہلے بھی ان کا مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ بلاول بےنظیر بھٹو اور میرا بیٹا ہے اس کو ڈرانے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔‘‘
تاہم تجزیہ کاروں کے آراء میں آصف زرداری کی آج کی تقریر ماضی کے برخلاف قدرے مختصر اور کمزور تھی۔ سینیئر صحافی مظہر عباس کا ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ الزامات بہت سنگین ہیں، آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو عدالت میں مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا، ’’اس مرتبہ بچنا مشکل ہے کیوں یہ رپورٹ ایف آئی اے نے ٹھوس شواہد کے ساتھ بنائی ہے اور انہیں اگر مزید چار ماہ مل گئےتو مزید چیزیں سامنے آنے کی بھی قوی توقع ہے۔ آصف زرداری خود پر لگے الزامات کا دفاع کر نہیں پا رہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا جلسے سے خطاب میں کہنا تھا،’’ بے نامی اکاؤنٹس کی تفتیش کرنے والے بے نامی وزیر اعظم کی بھی تفتیش کریں۔ اگر عمران خان کو وزیر اعظم بنانا ہی تھا تو انہیں یہ تو بتا دیتے کہ ملک کیسے چلایا جاتا ہے؟ انڈے اور مرغیوں سے ملک نہیں چلتے۔‘‘
بلاول نے دعوٰی کیا کہ عمران خان تو صرف کٹھ پتلی ہیں،’’ان کے ذریعے ملک میں ون یونٹ اور ون پارٹی رول چاہتے ہیں۔ لہذا اٹھارہویں ترمیم ان کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے اور اسی لیے ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ کان کھول کر سن لیں مجھے اس یکطرفہ نام نہاد احتساب سے ڈرایا نہیں جا سکتا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ سلیکٹڈ وزیر اعظم کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ وفاقی کی دیواریں کتنی کمزور ہو چکی ہیں،’’ کیا وجہ ہے کہ پختون خواہ میں نوجوان ایک تحریک کا حصہ بن رہے ہیں، مگر مجال ہے کہ اس ملک کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو احساس ہو، بلوچستان میں لاپتہ افراد کے ورثاء کے مطالبے کیوں نہیں سنے جاتے، اگر وہ مجرم ہیں تو عدالتوں میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا۔‘‘
اس موقع پر بلاول نے سوال کیا کہ یہ کیسا نظام ہے کہ اسلام آباد سے ایس پی طاہر داوڑ کے اغوا کی پتہ ہی نہیں چلتا،’’مگر میرے صدقے کے بکرے اور سالگرہ کے کیک تک کے بل مل جاتے ہیں؟‘‘
پی پی پی کے چیئرمین کے بقول،’’ مجھ پر وہ کیسز بنائے جا رہے ہیں جب میں ایک اور چھ سال کا تھا، اگر میں ان اتنا ہی تیز تھا تو مجھے ستارہ امتیاز ملنا چاہیے مجھے نوٹسز بھیجے جارہے ہیں، نہ ماضی میں کوئی الزام ثابت ہوا اور نہ ہی آئندہ ہو پائے گا۔‘‘
مبصرین کہتے ہیں کہ بلاول کی تقریر میں بھی اکثر باتیں پرانی تھیں لیکن یہ واضح ہے کہ جو موقف آصف زرداری کا ہے وہی بلاول بھٹو بھی دہرا رہے ہیں۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار کے آر فاروقی کہتے ہیں کہ بلاول نے جے آئی ٹی کو جھوٹا قرار دے کر اسے مسترد کرنے کی ہمت تو کی، مگر آصف زرداری نے تو اس پر بات ہی نہیں کی۔ ان کے مطابق یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ صرف اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت خصوصاً آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے، ’’گزشتہ دس برسوں کے دوران کراچی میں بہت کچھ ہوا ہے۔ بلڈنگ کنٹرول کا ڈی جی منظور قادر کاکا، ڈاکٹر عاصم حسین، ایڈمنسٹریٹر ثاقب سومرو، شرجیل انعام میمن اور نثار مورائی کے ذریعے کمائے گئے اربوں روپے کہا گئے؟ فالودے والے، رکشہ ڈرائیور اور دکانداروں کے اکاؤنٹس میں موجود اربوں روپے کیوں اور کیسے پہنچے؟ اس سب کا جواب تو دینا ہوگا۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق سندھ کے وزیر اعلٰی مراد علی شاہ کا نام بھی جے آئی ٹی میں پہلی مرتبہ بطور آصف زرداری کے سہولت کار سامنے آیا ہے جبکہ سندھ میں سرکاری فنڈز کی خرد برد اور بدعنوانی کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔
انسداد بدعنوانی کے محکمہ کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے اس پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اینٹی کرپشن کی رپورٹس کے مطابق صحت، تعلیم، ٹاؤن پلاننگ، بلدیات، اطلاعات، خوراک اور آبپاشی سمیت 17 محکموں میں اربوں کی کرپشن اور سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جانب سے 72 کروڑ کی بدعنوانی کی تحقیقات تو خود وزیر اعلٰی سندھ کے حکم پر کئی گئی تھیں لیکن پھر یہ معاملہ مقدمہ کے اندراج اور گرفتاریوں کے بجائے سیاسی مصلحت کا شکار ہو گیا اور تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے والے افسر کا تبادلہ کر کے معاملے کو سرد خانے ڈال دیا گیا۔
اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے نیوز کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ جے آئی ٹی میں، جن 172 افراد کے نام آئے ہیں، انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور اس مقصد کے لیے ان تمام افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔