ملالہ سے اتنی ’نفرت‘ کیوں ؟
2 اپریل 2018سوشل میڈیا پر جہاں ملالہ کی سوات کی تصاویر ہزاروں کی تعداد میں شئیر کی گئیں، اس نوجوان طالبہ کے اعزاز میں بہترین الفاظ لکھے گئے تو وہیں ان کے لیے سخت ناپسندیدگی اور نفرت بھی نظر آئی۔ آخر ملالہ نے ایسا کیا کیا ہے کہ جہاں عالمی سطح پر اس لڑکی کے عزم و حوصلے بیان کرنے والوں کی آنکھیں فخر اور محبت سے نم ہوجاتی ہیں تو وہیں پاکستان کے کچھ حلقوں میں طالبان کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بننے والی اس طالبہ کے خلاف نفرت آمیز جذبات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اس سوال کا جواب کالم نگار غازی صلاح الدین کی ایک حالیہ تحریر میں ملتا ہے۔ پاکستان کے انگریزی اخبار دی نیوز میں غازی صلاح الدین لکھتے ہیں،’’ در اصل یہ مذہبی شدت پسندی ہے جو جدت کے خلاف ہے اور جو ملالہ کو مغربی سازش سمجھتے ہیں۔‘‘ صلاح الدین کہتے ہیں کہ ملالہ سے نفرت کرنے والے زیادہ تر وہ افراد ہیں جنہوں نے ایک خاص مذہبی عسکریت پسندی کے ماحول میں پرورش پائی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے حالیہ دورہء امریکا کا حوالہ دیتے ہوئے صلاح الدین بتاتے ہیں کہ محمد بن سلمان نے اس دورے میں اعتراف کیا کہ مساجد اور مدرسوں میں سعودی سرمایہ کاری مغرب کے کہنے پہ کی گئی تھی تاکہ مسلم ممالک میں سابقہ سوویت یونین کے اثر و رسوخ کو ختم کیا جاسکے۔ لیکن آج وہی سعودی عرب اس ولی عہد کی سربراہی میں سعودی معاشرے کو اعتدال پسندی کی طرف لے جا رہا ہے۔
ڈیجیٹل سکیورٹی کی تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،’’ ملالہ کا پاکستان واپس آنا ہر لڑکی اور خاتون کے لیے امید کی کرن ہے۔ ملالہ نے پاکستان آکر ثابت کیا ہے کہ خواتین معاشرے کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کے سامنے نہیں جھکیں گی۔‘‘
’آج میری زندگی کا سب سے بڑا دن ہے‘، ملالہ یوسفزئی
صحافی فاریہ سحر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،’’ ملالہ کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس کے اپنے ہی ملک میں ایسا نہیں ہے۔ ملالہ لوگوں میں شک اور کچھ میں نفرت تک کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ ملالہ کے مخالفین کی رائے میں اس کا اتنی جلدی صحت یاب ہوجانا ناممکن تھا، اس کی کہی ہوئی باتیں انہیں اس کی عمر اور قابلیت سے زیادہ شخص کی لگتی ہیں اور انہیں اس کا مقصد ایک مغربی ایجنڈا لگتا ہے۔‘‘ فاریہ کہتی ہیں کہ ملالہ نے اپنے دورہء پاکستان کے دوران کئی انٹرویوز میں اپنے مخالفین کے سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ سیاست میں نہیں صرف تعلیم میں دلچسپی رکھتی ہے۔‘‘
ملالہ کے دورہء پاکستان میں اس سے ملاقات کرنے والی سماجی کارکن گلالئی اسماعیل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ریاست میں کچھ عناصر دنیا کو یہ پیغام نہیں دینا چاہتے کہ پاکستان ایک محفوظ ملک نہیں ہے اور وہ ملالہ کے خلاف جاری مہم کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘ گلالئی کہتی ہیں کہ ملالہ نے اپنے دورے میں یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان اس کا اپنا گھر ہے، اسے یہاں آنے کے لیے کسی کی اجازت نہیں چاہیے۔‘‘ گلالئی نے بتایا کہ ملالہ نے ان سے ملاقات کے دوران بتایا کہ وہ اگلے دس برسوں میں تمام پاکستانی بچوں کو اسکول بھیجنا چاہتی ہے اور وہ پاکستان کو لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے دنیا کا بہترین ملک بنانا چاہتی ہیں۔