ملکی حالات: پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور
27 مئی 2023پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ سے متعلق ايک اسٹارٹ اپ سے وابستہ ثنا ہاشم ايک عجيب کشمکش ميں مبتلا ہيں۔ وہ ملازمت کی غرض سے اب پاکستان چھوڑنا چاہتی ہيں مگر انہيں اپنے خاندان کی بھی فکر ہے۔ اس انتيس سالہ خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کی چند کمپنيوں ميں ملازمت کے ليے درخواستیں دے رکھی ہیں اور مجھے انٹرویو کی کالیں بھی موصول ہوئی ہیں۔ لیکن اگر مجھے نوکری مل بھی جاتی ہے، تو میں اپنے بیگ تیا رکر کے فوراً ہی نہیں جا سکتی۔ میرے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘
پی ٹی آئی کے خلاف کريک ڈاؤن، مبصرين کيا کہتے ہيں؟
پاکستان میں فی کس آمدنی ایک دہائی میں تیسری مرتبہ کم ترین سطح پر
پاکستان میں سیاسی بے یقینی اور خوف کے ماحول میں عوام بے بس
پاکستانی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے شائع کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2021 میں تقریباً دو لاکھ پچیس ہزار پاکستانیوں نے اپنا ملک چھوڑا جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد تقریباً تین گنا ہو کر سات لاکھ پینسٹھ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ سن 2022 کے ان اعداد و شمار میں 92 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد جیسے ڈاکٹر، انجینئر، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین اور اکاؤنٹنٹ شامل تھے۔ ان میں سے کچھ اکثر مغرب کی طرف جاتے ہیں تو باقی مشرق وسطیٰ کے ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا رخ کرتے ہیں۔
یہ رجحان سن 2023 میں بھی جاری ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں بھی تقریباً دو لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
اسلام آباد میں کام کرنے والے ایک تجربہ کار امیگریشن ایجنٹ ناصر خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سے پہلے انہوں نے ملک چھوڑنے والوں کی تعداد ميں ايک دو سال کے اندر اندر اتنا اضافہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے کیا، ''ترک وطن کرنے والے صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ ہر عمر کے لوگ روزانہ میرے دفتر آتے ہیں۔ لوگ بہت تھکے ہوئے اور مایوس ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ یہاں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔‘‘
آئی ٹی ماہر نعمان شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے وہ گزشتہ سال سعودی عرب چلے گئے تھے۔ انہوں نے بتايا، '' پاکستان ميں ميری محدود آمدنی گھر چلانے کے لیے ناکافی تھی، جبکہ ریاض میں ملازمت کی آفر کافی اچھی تھی۔‘‘
پاکستان میں کئی دہائيوں سے نوجوان افراد کو اپنا کیریئر آگے بڑھانے، روزگار کی تلاش، کم اجرتوں اور محدود امکانات جيسے مسائل کا سامنا ہے۔ آج کل ملک ایک گہرے سیاسی اور معاشی بحران کا بھی شکار ہے۔ جے ایس گلوبل سکیورٹیز کے مطابق رواں ماہ میں ملک میں افراط زر کی سالانہ شرح 37 فیصد تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے، جو جولائی 1965 کے بعد سے سب سے زیادہ بنتی ہے۔
مسلسل بگڑتی ہوئی معاشی اور سياسی صورت حال نے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانیوں کو بھی پریشانی میں ڈال رکھا ہے۔ پہلے طلبا کام کرنے کے لیے واپس اپنے ملک آتے تھے، لیکن اب کم ملازمتیں دستیاب ہونے کے باعث ان میں سے بہت سے بيرون ممالک ہی ملازمتیں اور مستقل رہائش اختيار کرنے کو ترجيح دے رہے ہيں۔
پاکستانی کرنسی روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں بہت سے والدین کو بیرون ملک یونیورسٹیوں میں داخلے لینے والے اپنے بچوں کو رقوم کی منتقلی بھی اب کہيں زیادہ مشکل لگ رہی ہے۔ طالبہ اجالا طارق نے بتايا، ''میرے والدین کو آسٹریلیا میں میری تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے میں اب بہت مشکل پیش آ رہی ہے۔ تاہم امید ہے کہ اس فیصلے کا نتیجہ اس وقت نکلے گا، جب میں آخر کار آسٹریلوی پاسپورٹ حاصل کرلوں گی۔‘‘
دريں اثنا پاکستان کے پہلے سے ہی کمزور نظام صحت کو مقامی ہسپتالوں میں عملے کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ کراچی کی ايک ماہر امراض چشم ڈاکٹر افشین اکبر نے کہا، ''ہمارے چند بہترین ڈاکٹروں کو امریکہ منتقل ہوتے دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے۔ لیکن کیا ہم انہيں غلط کہہ سکتے ہیں؟ سرکاری ہسپتالوں کے حالات اکثر خراب ہوتے ہیں اور صحت کے شعبے میں پیشہ ور کارکنوں کو بہت کم تنخواہیں ملتی ہیں۔‘‘
ع س / م م (زویا ناظر، اسلام آباد)