ملک میں پروان چڑھنے والے جہادیوں سے خطرات: وکی لیکس انکشاف
4 فروری 2011اس بارے میں برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں حال ہی میں وکی لیکس کی طرف سے منظر عام پر آنے والے انکشافات شائع ہوئے ہیں۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو وکی لیکس ویب سائٹ سے ملنے والی اطلاعات سے پتہ چلا ہے کہ برطانوی خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ اُنہیں ملکی سلامتی برقرار رکھنے اور برطانیہ میں پیدا ہونے والے انتہا پسندوں کے حملوں سے بچانے کے عمل میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے جہادی خود کُش حملہ آور بننے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔
کیبل کے ایک انکشاف کے مطابق برطانوی خفیہ ادارے MI6 کے ایک سینئر اہلکار نے ماضی میں برطانیہ کا دورہ کرنے والے امریکی کانگریس کے ایک اہلکار سے کہا تھا ’ برطانیہ کو درپیش اندرونی دہشت گردوں کی طرف سے خطرات زیادہ خوفناک ہیں‘۔
برطانیہ کے انسداد دہشت گردی کے ادارے کے اہلکاروں کا ماننا ہے کہ ایسا اس لئے ہے کہ ایسے انتہا پسند ملک کے اندر ہی موجود ہیں اور اگر یہ تربیت حاصل کرنے کے بعد فعال ہوگئے تو حکام کو ان کا سراغ لگانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا کیونکہ ان کا تعاقب اور پتہ لگانا نہایت مشکل ہوگا۔
برطانوی انٹیلی جنس سروس MI6 کے ایک اہلکار جس کا نام شائع نہیں کیا گیا، مزید اس بارے میں کہا کہ برطانیہ میں جب کبھی دہشت گردانہ حملوں کے خطرات پائے جاتے ہیں تو دہشت گردوں کو مانیٹر کرنے کے لئے سب سے زیادہ سی آئی اے اور دیگر امریکی ایجنسیوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔
2005 جولائی میں لندن کے ٹرانسپورٹ نیٹ ورک پرہونے والے خود کُش بم حملے ملک میں پروان چڑھنے والے چار افراد نے ہی کئے تھے، جس کے نتیجے میں 52 جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
وکی لیکس کے انکشافات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ امریکہ کو اس بارے میں گہری تشویش کا سامنا ہے کہ صومالیہ نژاد برطانوی شہریوں میں پائے جانے والے چند جہادی برطانیہ سے جنوبی صومالیہ کی طرف نام نہاد سیاحت کی غرض سے جا تے ہیں۔
2009 میں اس سلسلے میں برطانوی حکومتی اہلکاروں اور امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے درمیان ملاقات بھی ہوئی تھی۔ وکی لیکس کے انکشافات میں شامل اس ملاقات کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ اس موقع پر لندن حکومت کی ترجمان نے بھی اس بارے میں شدید تشویش ظاہر کی تھی کہ صومالیہ کی سرزمین سے بھی دہشت گردی جنم لے رہی ہے۔
برطانوی اخبار میں شائع ہونے والے وکی لیکس انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ برطانوی حکام ’ہوم گرون جہادسٹ‘ یا ملک میں پروان چڑھنے والے جہادیوں اور انتہا پسند صومالی نژاد برطانوی باشندوں کو معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ خاص طور سے ایسے جہادی جو پاکستان اور صومالیہ جا کر تربیت اور جہاد کی تلقین حاصل کرچُکے ہیں وہ برطانیہ کے لئے بڑا خطرہ تصور کیے جا رہے ہیں۔
دریں اثناء برطانیہ میں بجٹ کٹوتی کے سبب انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں اقدامات بھی کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں، خاص طور سے برطانیہ کے دفتر خارجہ کو کم وسائل کے ساتھ بہت زیادہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: افسر اعوان