مہاجرین کو اٹلی اور یونان سے منتقل کیوں نہیں کیا جا رہا؟
18 مئی 2016یورپی یونین کے اعلیٰ ترین ادارے یورپی کمیشن نے رکن ممالک سے درخواست کی تھی کہ وہ مئی کے وسط تک بیس ہزار پناہ گزینوں کو اٹلی اور یونان سے اپنے ہاں منتقل کریں۔
’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘
جرمنی آنا غلطی تھی، واپس کیسے جائیں؟ دو پاکستانیوں کی کہانی
روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق کمیشن کا کہنا ہے کہ رکن ممالک نے یورپی کمیشن کی درخواست کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جس کی وجہ سے ابھی تک صرف تین فیصد تارکین وطن کی منتقلی ممکن ہو سکی ہے۔
اس اعلیٰ یورپی ادارے کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق یورپی کمیشن نے دو ماہ قبل یہ ہدف مقرر کیا تھا کہ مئی کے وسط تک 20 ہزار تارکین وطن کو اٹلی اور یونان میں موجود پناہ گزینوں کے مراکز سے نکال کر یونین کے رکن ممالک منتقل کر دیا جائے گا۔
تاہم یورپی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے کے دوران محض 563 مہاجرین کی منتقلی ممکن ہو سکی۔
یورپی ممالک نے گزشتہ برس اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ یونان اور اٹلی پر مہاجرین کا بوجھ کم کرنے کے لیے ایک لاکھ 60 ہزار مہاجرین کو مہاجرین کی تقسیم کے کوٹہ کے تحت دیگر یورپی ممالک منتقل کیا جائے گا۔ اب تک مجموعی طور پر صرف پندرہ سو افراد کو ہی اس منصوبے کے تحت منتقل کیا جا سکا ہے۔
ہنگری اور مشرقی یورپی ممالک سمیت یورپی یونین کے کئی اراکین پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ مہاجرین کی لازمی تقسیم کے منصوبے کو قبول نہیں کرتے۔
آسٹریا سمیت بلقان کی کئی ریاستوں کی جانب سے مہاجرین کے لیے اپنی ملکی سرحدیں بند کرنے کے فیصلے کے بعد ہزاروں تارکین وطن یونان میں محصور ہیں۔
علاوہ ازیں یونان میں موجود 46 ہزار سے زائد تارکین وطن اس انتظار میں ہیں کہ ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ کیا جائے۔
اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس اورامُوپولوس کا کہنا تھا، ’’ہم نے اب تک جو نتائج حاصل کیے ہیں ہم ان پر مطمئن نہیں ہو سکتے۔ ہمیں فوری طور پر مزید بہت کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘