پاکستان اور بنگلہ دیش محفوظ ملک نہیں ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل
16 مئی 2016دنیا بھر میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشل نے یورپی یونین کے رکن ممالک کے مابین پاکستان اور بنگلہ دیش کو ’محفوظ ریاستوں‘ کی فہرست میں شامل کیے جانے کے بارے میں جاری بحث کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنوبی ایشیائی ریاستیں کسی بھی طور پر ’محفوظ ممالک‘ نہیں ہیں۔
’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘
جرمنی آنا غلطی تھی، واپس کیسے جائیں؟ دو پاکستانیوں کی کہانی
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جرمن شاخ کا تین روزہ سالانہ اجلاس آج سولہ مئی بروز پیر جرمنی کے شہر نوئس میں اختتام پذیر ہو گیا۔ اجلاس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ترجمان گابی شٹائن نے یورپی یونین اور جرمنی سے مطالبہ کیا کہ وہ مہاجرین اور تارکین وطن کو بہتر تحفظ فراہم کرنے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
ایمنسٹی کی ترجمان کا کہنا تھا، ’’سیاسی پناہ حاصل کرنے کا حق بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہوتا ہے لیکن پناہ کا حصول موجودہ دور میں بدستور مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی جرمن شاخ کے اس سہ روزہ اجلاس میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے پر ایک بار پھر شدید تنقید کی گئی اور اسے ’انسانی حقوق سے متصادم‘ قرار دیا گیا۔
علاوہ ازیں یورپی یونین کی جانب سے نام نہاد ’محفوظ ممالک‘ سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی جلد از جلد ان کے آبائی ملکوں کو واپسی کے فیصلے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل جرمنی کے اس سالانہ اجلاس کے دوران یورپی ممالک کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کو ’محفوظ ممالک‘ قرار دیے جانے کی تجویز کو بھی رد کر دیا گیا۔ ممکنہ طور پر ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو آئندہ یورپی یونین میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہو جائیں گے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ان ممالک میں تشدد، اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مظالم اور آزادی اظہار پر قدغن لگائے جانے جیسے اقدامات روزمرہ کا معمول ہیں، اس لیے انہیں ’محفوظ ملک‘ قرار دینے کا فیصلہ غلط ہو گا۔
جرمنی کی وفاقی پارلیمان نے حال ہی میں الجزائر، مراکش اور تیونس کو ’محفوظ ملک‘ قرار دینے کے فیصلے کی توثیق کر دی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جرمن پارلیمان کے اس فیصلے کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔