مہمند ایجنسی میں آپریشن، ہزاروں شہری مہاجر
4 فروری 2011اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی ایک ترجمان نے پشاور میں خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ پاکستانی دستوں کی طرف سے یہ نئی کارروائیاں قبائلی علاقوں کے مہمند ایجنسی نامی حصے میں کی جا رہی ہیں، جہاں سے امریکی حکومت کے دعووں کے مطابق طالبان اور القاعدہ کے جنگجو اور ان کے رہنما افغانستان اور مغربی ملکوں پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
UNHCR کی Ariane Rummery نامی اس ترجمان کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران مہمند ایجنسی سے بچوں اور خواتین سمیت قریب بائیس ہزار مقامی باشندے اپنے گھروں کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور ان کے لیے مہاجرین کے عالمی ادارے کی طرف سے اب تک دو بڑے عارضی کیمپ بھی قائم کیے جا چکے ہیں۔
مہمند ایجنسی کے اعلیٰ ترین انتظامی اہلکار امجد علی نے بھی مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد میں اپنے گھروں سے نقل مکانی کی تصدیق کر دی ہے اور کہا ہے کہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے ان ہزاروں افراد کو خوراک، خیمے اور ضرورت کی دیگر اشیاء مہیا کی جا رہی ہیں۔
امجد علی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان نئی مسلح کارروائیوں کے دوران زمینی اور فضائی آپریشن کرتے ہوئے مقامی طالبان اور ایسے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت قبائلی علاقوں میں کئی دوسری جگہوں پر فوجی آپریشن کے دوران وہاں سے فرار ہو کر مہمند ایجنسی میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔
اسی علاقے میں نیم فوجی پاکستانی دستوں پر مشتمل فرنٹیئر کور کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ مہمند ایجنسی میں مسلح کارروائیوں کے دوران گزشتہ پانچ روز میں 70 سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے پشاور میں صحافیوں کو بتایا کہ اس صوبے میں پچھلے چند روز کے دوران عسکریت پسندوں کی طرف سے بم حملوں میں جو تیزی آئی ہے، اس کی وجہ مہمند ایجنسی میں کیا جانے والا یہی فوجی آپریشن ہے۔
پاکستان میں جولائی 2007ء میں اسلام آباد کی لال مسجد پر مسلح شدت پسندوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے کیے گئے فوجی آپریشن کے بعد سے اب تک طالبان کی طرف سے تقریباﹰ روزانہ کیے جانے والے بم حملوں میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں چار ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شامل شمس