ناسا کی سیٹیلائیٹ کہاں گری؟
25 ستمبر 2011امریکی خلائی تحقیقاتی ایجنسی ناسا کے خیال میں اس مصنوعی سیارے کے ملبے کا زیادہ تر حصہ بحر الکال میں گرا ہو گا، لیکن اب تک حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک بس کے برابر اس سیٹیلائیٹ کے ملبے کے مختلف حصے زمین پر کس کس جگہ اور ٹھیک کس وقت گرے ہیں۔
امریکہ کی اپر ایٹموسفئیر ریسرچ سیٹیلائیٹ یا UARS گزشتہ بیس برس سے زمین کے گرد اپنے مدار میں چکر کاٹ رہی تھی، تاہم بے قابو ہو جانے کے بعد یہ زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہو گئی۔
حکام کے مطابق کرہ ہوائی میں داخل ہونے کے بعد یہ سیٹیلائیٹ کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی، جبکہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے ایک ٹکڑا ممکنہ طور پر ایک سو پچاس کلوگرام وزنی تھا، جو زمین پر گرا ہو گا۔
ناسا کا کہنا ہے کہ اس سیٹیلائیٹ کے گرنے کے ممکنہ مقررہ راستے میں زیادہ تر سمندر پڑتا ہے، لیکن اس کے اس راستے میں کینیڈا، براعظم افریقہ کا مغربی علاقہ بھی پڑتا ہے۔ تاہم کسی بھی علاقے سے اس سیٹیلائیٹ کا ملبہ گرنے کی مصدقہ اطلاعات یا شواہد نہیں ملے ہیں۔
جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب سماجی نیٹ ورکنگ سائٹ ٹوئیٹر پر کچھ صارفین نے ’شعلے‘ کے زمین پر گرنے کا دعویٰ کیا، تاہم اس دعوے کی تصدیق ممکن نہیں ہو پائی ہے۔
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے زمینی مدار میں خلائی ملبے سے متعلق شعبے کے سربراہ نکلس جانسن کے مطابق، ’چونکہ اس جگہ کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکا، جہاں سے یہ سیٹیلائیٹ کرہ ہوائی میں داخل ہوئی، اس لیے یہ پتہ چلانا بھی مشکل ہے کہ اس کے کتنے ٹکڑے ہوئے اور وہ کہاں کہاں گرے۔‘
یو اے آر ایس نامی یہ مصنوعی سیارہ 35 فٹ لمبا اور 15 فٹ چوڑا تھا تاہم بہرحال یہ سن 1979ء میں زمین پر گرنے والے امریکی مصنوعی سیارے سکائی لیب سے چھوٹا تھا۔ واضح رہے کہ سکائی لیب کا وزن 75 ٹن تھا۔
سن 2001ء میں 135 ٹن وزنی روسی خلائی اسٹیشن میر بحرالکاہل میں گرا تھا، تاہم اسے مکمل طور پر کنٹرولڈ طریقے سے گرایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ یواے آر ایس کو سن 1991ء میں کرہ ہوائی میں اوزون کی تہہ اور دیگر کیمیائی مادوں کی زمینی فضا میں موجودگی کے حوالے سے تحقیق کے لیے خلا میں چھوڑا گیا تھا۔ اس نے اپنا مشن سن 2005ء میں مکمل کر لیا تھا اور تب سے یہ دھیرے دھیرے اپنے راستے سے ہٹ کر کرہ ہوائی کی جانب بڑھنا شروع ہوئی تھی۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: ندیم گِل