نسوانی ختنوں میں اضافہ، عالمی برداری میں پریشانی کا باعث
5 فروری 2016اقوام متحدہ نے پانچ فروری بروز جمعہ جاری کردہ اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں لڑکیوں اور خواتین کے ختنے کیے جانے کے عمل میں اضافہ ہوا ہے اور اس عمل کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
نسوانی ختنوں کے خلاف عالمی دن کے موقع پر اس عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ عالمی کوششوں کے باوجود کچھ ممالک میں یہ عمل فروغ پا رہا ہے۔ نسوانی ختنے یا ’فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن FGM کے عمل میں لڑکیوں یا خواتین کی اندام نہانی کے بیرونی حصے کو مکمل یا جزوی طور پر کاٹ کر الگ کردیا جاتا ہے۔
خواتین یا لڑکیوں کے جنسی اعضاء کو ایسے بہیمانہ طریقے سے کاٹ دینے کی فرسودہ روایت زیادہ تر افریقی ممالک میں اب بھی رائج ہے۔ اقوام متحدہ نے اس عمل کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر موجودہ روایات برقرار رہیں تو آئندہ پندرہ برسوں کے دوران نسوانی ختنوں کا شکار بننے والی خواتین کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گی۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ اطفال نے یہ رپورٹ ’زیرو ٹالرنس فار فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن‘ کے دن کی مناسبت سے جاری کی ہے۔ یونیسف نے اس رپورٹ کی تیاری کی خاطر تیس ممالک سے اعداد و شمار جمع کیے لیکن اس رپورٹ کے مطابق نسوانی ختنوں کا شکار بننے والی نصف خواتین کا تعلق مصر، ایتھوپیا اور انڈونیشیا سے تھا۔
یونیسف کی نائب ایگزیکٹیو ڈائریکٹر گیتا راؤ گپتا کا کہنا ہے کہ مختلف خطوں اور ثقافتوں میں نسوانی ختنہ کرنے کے طریقہ کار مختلف ہیں لیکن اس کی کچھ اقسام سے خواتین کو سنجیدہ طبی مسائل بھی لاحق ہو سکتے ہیں، ’’نسوانی ختنے کی ہر قسم بچیوں اور خواتین کے حقوق کی پامالی کا باعث ہے۔ ہم سب کو مل کر اس کے سدباب کے لیے کام کرنا چاہیے۔‘‘
افریقی ملک صومالیہ میں نسوانی ختنوں کی روایت بہت زیادہ پائی جاتی ہے، جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق پندرہ تا انچاس برس کی خواتین کی اٹھانوے فیصد تعداد اس عمل کا شکار ہے۔ اسی طرح گنی، جبوتی اور سیرا لیون میں بھی بہت زیادہ خواتین کے ختنے کیے جاتے ہیں۔
اس بہیمانہ عمل کی حمایت کرنے والی کمیونٹیوں میں نسوانی ختنہ شادی کرنے کی ایک اہم شرط تصور کیا جاتا ہے۔ بہت سے افراد اسے مذہبی ذمہ داری بھی تصور کرتے ہیں لیکن ابراہیمی مذاہب میں نسوانی ختنوں کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے۔