وکی لیکس کی طرف سے دستاویزات کا اجراء غیر ذمہ دارانہ ہے، پاکستان
29 نومبر 2010پاکستان نے وکی لیکس کی جانب سے امریکی خفیہ دستاویزات کے اجراء کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک غیرذمہ دارانہ فعل قرار دیا ہے۔ پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان کے بقول حساس نوعیت کی دستاویزات کا یوں منظر عام پر آنا درست نہیں۔ تاہم ترجمان نے وکی لیکس کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات کے اس حصے کا کریڈٹ بھی لیا جس کے مطابق امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان نے اس کے ماہرین کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت نہیں دی۔ ترجمان نے کہا، "جہاں تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے وہ ان دستاویزات سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے اہل ہیں اور ہم نے بھرپور طریقے سے اپنے قومی مفادات کا تحفظ کیا اور آنے والے دنوں اور سالوں میں بھی ہمارا یہی رویہ رہے گا۔"
خفیہ دستاویزات کے اس حصہ پر بھی خاصے تبصرے کیے جا رہے جن میں کہا گیا ہے کہ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ صدر آصف علی زرداری کو پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ یہ بات پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش ہے۔ ادھر معروف تجزیہ نگار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ دستاویزات کے جن حصوں کو نمایاں کیا گیا ہے وہ زیادہ تر مسلم ممالک کے بارے میں ہیں۔ حسن عسکری کے مطابق، "مسلمان ممالک میں عموماً امریکہ کے لیے ایک منفی رویہ موجود ہے۔ میرے خیال میں ان دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے وہ رویہ مزید مستحکم ہوگا۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک کے حکام بلکہ پوری دنیا کے حکام جو امریکہ کی ایمبیسیوں سے گفتگو کرتے ہیں وہ اب زیادہ احتیاط سے کام لیں گے کیونکہ انہیں یہ خطرہ ہو گا کہ ان دستاویزات میں ان افسران کے نام نہ ہوں جن سے امریکیوں نے یہ خبریں حاصل کیں۔"
دوسری طرف بعض حلقے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی دفاعی تنصیبات کے معائنے کی اجازت طلب کرنا ملکی سلامتی کے خلاف ہے۔ تاہم دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ یہ امریکی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن پاکستان کو ایسا کرنے سے پہلے اپنے مفاد کو سامنے رکھا ہو گا۔ طلعت مسعود کے مطابق، "امریکہ چونکہ ایک سپر پاور ہے اس لیے اس کی کوشش رہتی ہے کہ ساری دنیا میں اور خاص طور پر ایسے ممالک جہاں وہ سمجھتا ہے کہ اس کے مفادات زیادہ ہیں مثال کے طور پر پاکستان، تو ایسے ممالک میں وہ جاسوسی کا نظام مزید وسیع کر دیتا ہے اس لیے ہمیں اپنے قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس عمل کو جتنا کم کر سکیں کرنا چاہیئے۔"
وکی لیکس پرامریکہ کی اڑھائی لاکھ سفارتی دستاویزات کا اجراء کیا گیا ہے اور یہ دستاویزات گزشتہ تین سال کے عرصے پر محیط ہیں اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دستاوزیات سے مزید حساس معلومات بھی منظر عام پر آسکتی ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: افسراعوان