پاکستانی طلبا کی میڈیا میں کیریئر میں کم دلچسپی کا سبب کیا؟
31 مئی 2024پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سرکاری کالج نے گزشتہ سال اپنے شعبہ صحافت اور انگریزی کو ضم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن طلبہ کی ناراضی اور احتجاج نے انہیں اپنے ارادے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ عمارہ راجپوت نامی طالبہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اخراجات میں کمی کے لیے دونوں شعبوں کا انضمام ضروری تھا لیکن ہمارے احتجاج کے بعد انہوں نے اپنے منصوبے پر نظر ثانی کرلی۔"
پاکستانی میڈیا کا بحران، صحافی ’بھوکے مر رہے‘ ہیں
پاکستان میں صحافت کے چار حالیہ ادوار
تاہم پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبرپختونخوا میں صحافت میں اپنا کیریئر بنانے کے خواہش مند طلبہ اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔ وہاں کی متعدد یونیورسٹیوں نے مانگ میں مسلسل کمی کے سبب اپنے صحافتی کورسز کو روک دیا ہے اور کم از کم پانچ دیگر پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔
ایک ٹیچر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ" کرک کی خوشحال خاں خٹک یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں 12طلبہ کے لیے نو ٹیچر ہیں، جو صحافت کے کورسز میں اندراج کے بحران کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔"
مشرف کا میڈیا انقلاب
پاکستان میں جرنلزم کی تعلیم دینے والے تقریباً 50 کالج ہیں، جن میں سے زیادہ تر اس وقت قائم کیے گئے تھے جب سن 2002 میں اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں میڈیا کے شعبے کو آزاد کیا، جس سے صحافیوں اور دیگر میڈیا ورکرز کی اچانک مانگ پیدا ہو گئی۔
پاکستان میں صحافت ایک کاروبار اورمیڈیا کرپشن کا شکار ہے، داؤ پرکیا کچھ لگا ہے ؟
پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں گزشتہ برس تریسٹھ فیصد اضافہ
دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد جنوبی ایشیائی ملک میں میڈیا کی 'سیچوریٹیڈ مارکیٹ' کے درمیان صحافت کی تعلیم دینے والے کالجوں کو طلبہ کو راغب کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہا ہے۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی سابق طالبہ ایمان خان کا کہنا تھا،"میں نے صحافت میں گریجویشن کا کورس کیا تھا لیکن ایک بہتر مستقبل کے لیے جلد ہی مجھے بزنس کورس کرنا پڑا کیونکہ مین اسٹریم کے اخبارات اور نیوز چینلز دونوں ہی میں مواقع کافی محدود تھے۔"
پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں کم تنخواہوں اور تاخیر سے ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ ملازمت میں عدم تحفظ کے حالات بھی پائے جاتے ہیں۔
اچانک نمودار ہوجانے والے میڈیا کالجز
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بہت سی یونیورسٹیوں نے میڈیا مارکیٹ میں امکانات کی تحقیق کے بغیر ہی جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن کے شعبے کھول دیے۔
اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (این یو ایم ایل) میں میڈیا شعبے کے سربراہ پروفیسر مدثر مختار کا کہنا تھا کہ میڈیا انڈسٹری عام طورپر لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں موجود تھی، اس لیے دیگر اور بالخصوص دو دراز علاقوں کے یونیورسٹیوں میں صحافت کا شعبہ کھولنا اچھا خیال نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ،"یہ تین بڑے شہر اب میڈیا گریجویٹس یا دوسرے خطوں سے آنے والے ممکنہ میڈیا پروفیشنلز کو خوش آمدید نہیں کہہ سکتے۔ اسی لیے صحافت کے شعبوں میں اندراج کم ہورہی ہیں یا یہ شعبے بند ہورہے ہیں۔"
پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو ریگولیٹ کرنے والے ملک کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کا خیال ہے کہ سن 2000 کی دہائی میں الیکٹرانک میڈیا کے عروج کے دوران بہت سے نوجوانو ں نے مستقبل کے امکانات پر غور کیے بغیر نیوز چینلوں کی بھیڑ میں چھلانگ لگادی۔
مختار احمد کا کہنا تھا،"ڈیجیٹل میڈیا کی مقبولیت نے نیوز ٹی وی کے' بلبلے 'کو پھوڑ دیا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ورکرز یا تو ملازمتوں سے ہٹادیے گئے یا ان کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کردی گئیں۔ اس کی وجہ سے طلبہ صحافت کے پیشے سے مایوس ہو گئے۔"
پاکستان کے معروف انگلش روزنامے 'دی نیوز انٹرنیشنل' کے ایڈیٹر عامر غوری بھی مختار احمد کے خیالات سے متفق ہیں۔انہوں نے ڈی ڈبلیو سے کہا کہ ملک کی معیشت اتنی مضبوط نہیں ہے کہ اشتہارات کے ذریعے میڈیا اداروں کی آمدن کو سہارا دے سکے۔ اس لیے بہت سے مالکان نے اپنے ٹی وی اسٹیشن بند کردیے۔
انہوں نے کہا کہ،"اس نے نوجوان صحافیوں اور براڈکاسٹروں کے لیے چیزیں مشکل بنادیں، جنہوں نے یہ سوچ کر اس انڈسٹری میں شمولیت اختیار کی تھی کہ وہاں تو بہت ساری ملازمتیں موجود ہیں۔ لیکن انہیں پتہ چلا کہ یہ اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی کہ وہ سوچتے تھے۔"
تنقیدی صحافیوں کے لیے حالات اور بھی مشکل
پاکستان میں صحافیوں کی سلامتی کے حوالے سے خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے صحافیوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کی نشاندہی ایک ایسے عنصر کے طورپر کی ہے جو طالب علموں کی میڈیا کیریئر کو آگے بڑھانے میں عدم دلچسپی کا سبب بن رہا ہے۔
پاکستان: ذرائع ابلاغ کے لیے محدود تر ہوتی ہوئی آزادی
کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"ہمارے ملک میں بہت سے لوگ، بالخصوص خواتین دھمکیوں، ہراساں کیے جانے، اغوا، حملوں اور یہاں تک کے موت کے بڑھتے خطرے کی وجہ سے صحافت کو ایک خطرناک پیشہ سمجھتے ہیں، اس لیے وہ کیریئر کے دیگر شعبوں کو ترجیح دیتے ہیں۔"
اسلام آباد سے شہری آزادیوں کے لیے سرگرم تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی 2023 کی ایک رپورٹ میں بھی ان خدشات کی بازگشت موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران صحافیوں کے خلاف دھمکیوں اور حملوں میں 60 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔
نجی اردو نیوز چینل'ہم نیوز' کی ادارتی ٹیم کی رکن شاہدہ ظریف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صحافت کے طالب علم پہلے ان سے مشورہ مانگتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا۔انہوں نے کہا، ''قابل صحافیوں کی غیر موجودگی میں، میڈیا اداروں کو رپورٹنگ اور پروڈکشن کے اچھے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اگر صحافت کو نقصان پہنچتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی نقصان پہنچے گا۔''
ج ا/ ص ز (جمیلہ اچکزئی،اسلام آباد)