1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ذرائع ابلاغ کے لیے محدود تر ہوتی ہوئی آزادی

عبدالستار، اسلام آباد
4 دسمبر 2023

پاکستان کی صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ذرائع ابلاغ پر سخت ترین 'سیلف سینسر شپ‘ قائم ہو چکی ہے اور طاقت ور ریاستی عناصر کی مداخلت بہت بڑھ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ZlKW
Karachi Pakistan Electronic Media Story
تصویر: Rafat Saeed/DW

اس بحث کو مزید تقویت ان افواہوں سے ملی جن میں دعویٰ کیا گیا کہ نجی چینل جیو نیوز کے معروف اینکر حامد میر کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے، تاہم جیو نیوز نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ ان افواہیں سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے لیے گنجائش کم تر جا رہی ہے۔

پاکستان میں پیکا قانون میں ترمیم کی خبروں پر تشویش

کیا پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ممکن ہوسکیں گے؟

عمران خان کے سائفر کیس کا اوپن ٹرائل جیل میں ہی ہوگا: عدالتی یوٹرن؟

سائفر کیس کی سماعت اور میڈیا کی رسائی

واضح رہے کہ آج پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ شکوہ کیا گیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران جیل کے اندر صرف کچھ صحافیوں کو اس کی کوریج کی اجازت دی گئی جبکہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو اجازت نامہ موصول نہیں ہوا۔

اس سماعت کی کوریج کرنے والے ایک صحافی ثاقب بشیر کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ صحافیوں کی اکثریت کو سماعت کی کوریج کے لیے اندر نہیں بلایا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابتدائی طور پر 16 کے قریب صحافیوں کے نام بھیجے گئے اور بعد میں مزید صحافی بھی آگئے، تو مجموعی طور پر 20 سے زیادہ ملکی اور بین الاقوامی صحافی تھے لیکن بعد میں جن صحافیوں کو اجازت ملی ان کی تعداد تقریبا سات تھی۔‘‘

پاکستان کے سابق وزیر اعظم، عمران خان
عمران خان کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران جیل کے اندر صرف کچھ صحافیوں کو اس کی کوریج کی اجازت دی گئی جبکہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو اجازت نامہ موصول نہیں ہوا۔تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ثاقب بشیر کے مطابق انہوں نے اس مسئلے پر متعلقہ حکام کی توجہ بھی دلائی ’’لیکن اس کے باوجود ان صحافیوں کو بلایا نہیں گیا اور کہا گیا کہ اگلی سماعت پر بلائیں گے۔‘‘

حامد میر کے حوالے سے افواہیں

دوسری طرف پاکستان کے سوشل میڈیا پر یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ معروف صحافی اور اینکر حامد میر کو جیو نیوز سے جبری طور پر رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حامد میر نے اپنے حالیہ پروگراموں میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ کچھ طاقتیں انتخابات کو ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔ تاہم جیو نیوز نے ایسی تمام خبروں کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ جیو نیوز کے منیجنگ ڈائریکٹر اظہر عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ بالکل بے بنیاد خبر ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حامد میر اپنی سالانہ چھٹیوں پر گئے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ان چھٹیوں کے دوران بھی کوئی پروگرام کریں۔ کئی دوسرے صحافتی ذرائع نے بھی ڈی ڈبلیو کو اس بات کی تصدیق کی کہ حامد میر کو جبری رخصت پر نہیں بھیجا گیا ہے۔‘‘

’کنٹرول بڑھتا جارہا ہے‘

تاہم کئی معروف صحافیوں کا کہنا ہے کہ حامد میر کے حوالے سے بھلے یہ خبر غلط ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا پر طاقتور ریاستی قوتوں کا کنٹرول بڑھتا جا رہا ہے اور سیلف سینسر شپ میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ صورتحال یہ ہے کہ چینلز کے ٹکرز بھی کنٹرول کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طاقتور عناصر نے کچھ ریڈ لائنز کھینچ دی  ہیں جن کے تحت منظور پشتین، گمشدہ افراد اور پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماؤں کی میڈیا پہ موجودگی بالکل ناپید ہے۔ منظور پشتین کے کیس میں تو اسے جلسے بھی نہیں کرنے دیے جا رہے اور اس کی میڈیا کوریج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

ناصر زیدی کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ’’اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو پی ٹی آئی کے رہنما ٹی وی پر آتے بھی ہیں وہ بھی انہی کی منظوری سے آتے ہیں اور یہ عموماﹰ ایسے رہنما ہوتے ہیں جن کا بات کرنے کا انداز انتہائی دھیما ہوتا ہے اور وہ کسی طرح کی تنقید نہیں کر سکتے۔‘‘

ناصر زیدی کے مطابق نہ پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں کی کوریج کی اجازت ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کے کسی رہنما کے انٹرویو کی گنجائش ہے۔‘‘

بحرانوں کا شکار پاکستان: ذمہ دار کون، فوج یا سیاست دان؟

’پی ٹی آئی کو 14 فیصد کوریج ملی‘

 میڈیا مانٹیرنگ کرنے والے کچھ غیر جانبدار ادارے بھی یہی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو مناسب کوریج نہیں مل رہی۔ گیلپ پاکستان سے تعلق رکھنے والے بلال گیلانی کے مطابق ان کی تنظیم نے جولائی میں جو سروے کیا اس کے مطابق 10 اہم ٹاک شوز جن کو بڑے پیمانے پہ عوام دیکھتی ہے ان میں 30 فیصد کوریج پاکستان مسلم لیگ نون کو ملی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پیپلز پارٹی کو 29 فیصد کوریج ملی جبکہ پی ٹی آئی کو صرف 14 فیصد کوریج ملی۔‘‘

معروف اینکر پرسن فریحہ ادریس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو ماضی میں جب اسپیس ملا تو وہ درجہ حرارت کو بہت اونچی سطح پر لے گئی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''اور اس کی وجہ سے عمران خان کے بیانات ہمیں کبھی کبھار بین الاقوامی میڈیا پر تو مل جاتے ہیں لیکن مقامی میڈیا پر ان کے بیانات نہیں ملتے۔ پی ٹی آئی جس طرح درجہ حرارت کو اونچی سطح پر لے کر گئی ہے، اس سطح کو کم کرنے میں برسوں لگیں گے۔‘‘

'کوریج نہ ملنے کا شور غلط ہے‘

تاہم پاکستان تحریک انصاف کی مخالفین کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو مناسب کوریج مل رہی ہے اور پی ٹی آئی کوریج نہ ملنے کا بلا وجہ شور کر رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق گورنر خیبر پختون خوا اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی والے ماضی کی طرح کی میڈیا کوریج چاہتے ہیں، جو اب ممکن نہیں ہے: '’یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگوں کو کوریج نہیں مل رہی، بیرسٹر گوہر، شیر افضل خان مروت، علی محمد خان اور دوسرے کئی پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو روزانہ آپ ٹاک شوز میں دیکھ سکتے ہیں اور وہ اپنی پارٹی کا نقطہ نظر بھی بیان کرتے ہیں۔‘‘

پاکستان سائفر تنازعہ: ’گفتگو کو غلط سمجھا گیا‘

اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق پی ٹی آئی یہ شور اس لیے مچا رہی ہے کہ اب اس کے پاس اپنی سیاسی غلطیوں کے دفاع میں کچھ نہیں ہے: ''پی ٹی آئی نے اپنے دور اقتدار میں شدید نا اہلی کا مظاہرہ کیا اور عوام کو کچھ نہیں دیا۔ تو ان کے پاس اپنے دفاع میں اپ اب کچھ نہیں ہے۔ اس لیے وہ شور مچا رہے ہیں کہ انہیں میڈیا کوریج نہیں مل رہی۔‘‘

اقبال ظفر جھگڑا کا دعویٰ تھا کہ میڈیا تمام سیاسی جماعتوں کو اسپیس دے رہا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی خواہش ہے کہ ساری کی ساری کوریج اسے ملے جو اب بدلتے ہوئے سیاسی ماحول میں ممکن نہیں۔