پاکستان، حکومت مخالف نیوز چینل پر پابندی
21 اکتوبر 2014پاکستان میں اس چینل کی نشریات پر اس پابندی کو آزادی رائے پر ایک قدغن خیال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم اور کارکان نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کا عہد کیا ہے۔ ادھر اے آر وائی نیوز چینل کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے لائسنس کو معطل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا جبکہ پیمرا کا یہ اقدام غیر قانونی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس چینل کی انتظامیہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔
پیر کے دن پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ عدالتوں اور عدلیہ کو بدنام کرنے کے الزام کے تحت اے آر وائی نیوز چینل کی نشریات کو پندرہ دن کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان بھر کے مختلف علاقوں میں کیبل آپریٹرز نے اے آر وائی کی نشریات کو روک دیا ہے اور بہت سے علاقوں میں شہری اس چینل کو دیکھنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔
پیمرا کی طرف سے جاری کردہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی توہین کا مرتکب ہونے پر اے آر وائی نیوز چینل کو دس ملین روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے ریگولیٹری ادارے نے مزید کہا ہے کہ ماضی میں بھی اس چینل نے پیمرا کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
پاکستان میں نواز شریف کی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے اپوزیشن رہنما عمران خان اور طاہر القادری دونوں نے ہی پیمرا کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ یہ واچ ڈاگ ادارہ اپنے اس فیصلے کو واپس لے۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان میں جب سے نواز شریف کے خلاف دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو اس چینل نے اس احتجاج کی بھرپور طریقے سے کوریج کی جبکہ کچھ حلقوں کے خیال میں اے آر وائی نیوز چینل نے کھلم کھلا پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کرتے ہوئے عوامی رائے میں تبدیلی کی کوشش میں بھی کی۔
پاکستان میں پیمرا کی طرف سے ابھی حال ہی میں مقبول ترین نیوز چینل جیو کی نشریات معطل کرنے کے بھی احکامات جاری کیے گئے تھے۔ چار ماہ قبل جیو نیوز اور پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے مابین پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد جون میں اس چینل کو وقتی طور پر بند کیا گیا تھا۔
پاکستان میں 2002ء میں نجی نیوز چینلز کو لائسنس جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس سلسلے کو پاکستان میں آزادی صحافت اور رائے کے لیے ایک انتہائی اہم پیشرفت قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ تمام نیوز چینلز سیاسی معاملات اور دیگر مسائل پر کھل کر رپورٹنگ کرتے ہیں لیکن فوج اور عدلیہ کے حوالے سے آزادانہ رپورٹنگ انتہائی حساس معاملہ ہے۔