پاکستان سے ملحقہ سرحد، ایران بند کر دے گا
3 جولائی 2011ارمان نیوز پیپر نے جنرل اسماعیل احمدی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران پہلے ہی سے اپنی 90 فیصد مشرقی سرحد کو سِیل کر چکا ہے۔ جنرل کے مطابق جنوب مشرقی علاقے سراوان کے قریب پاکستان کی سرحد کے ساتھ 10 فیصد حصہ باقی بچا ہے، جسے آئندہ تین برسوں میں مکمل طور بر بند کر دیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیدل چلنے والوں کو بھی سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ایران نے 1990 کے آغاز میں اپنی 1800 کلومیٹر طویل سرحد پر ’دیوار‘ کی تعمیر شروع کی تھی، جس کی مقصد عسکری گروپوں اور منشیات اسمگلروں کے ایران میں داخلے کو روکنا تھا۔
واضح رہے کہ ایران میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث گروپوں میں سے ایک گروپ جنداللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان سے ایران میں داخل ہو کر تخریبی کارروائیاں کرتا ہے۔ پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والے زیادہ تر افراد اسی سرحد کے ذریعے ایران میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں سے مغرب کا رخ کرتے ہیں۔
ایرانی مشرقی سرحد پر بنائی جانے والی ایک ہزار کلومیٹر لمبی ’دیوار‘ کو خاردار تار اور سمینٹ کے ذریعے مضبوط کیا گیا ہے۔
ایران کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں مشرقی سرحد پر ان کے 3700 سے زائد فوجی اہلکار منشیات اسمگلروں اور جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ افغانستان سے ملحقہ یہ ایرانی سرحد افغانی منشیات اسمگلروں کے لیے ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ منشیات کی ایک بڑی مقدار اسی راستے یورپ اور عرب ملکوں تک پہنچائی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 90 فیصد ’افیون‘ افغانستان میں پیدا کی جاتی ہے۔
اسماعیل احمدی کا کہنا تھا کہ ایران نے گزشتہ 12 مہینوں میں 420 ٹن منشیات پکڑی ہے۔ ایران کے جنوب مشرقی صوبے سستان بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی طرف سے اکثر دراندازی کی جاتی ہے۔ سنی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ عرصہ دراز سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ سنی گروپ جنداللہ ایران میں کئی بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ ایران کا الزام ہے کہ اس عسکری گروپ کو امریکی اور پاکستانی خفیہ اداروں کی مدد حاصل ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف توقیر