پاکستان میں انتخابی مہم یا سیاسی بیانیے کی جنگ؟
26 نومبر 2023پاکستان پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر روٹی کپڑے اور مکان والے بیانیے کے ساتھ ووٹروں کا دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن سندھ میں برسا برس تک حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کے پاس اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ہے کہ وہ اتنے عرصے میں سندھ کے لوگوں کو روٹی کپڑے اور مکان کی سہولتیں کیوں نہیں دے سکی۔ تجزیہ نگار فاروق حمید کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیانیہ کہ بوڑھوں کو اس سیاست سے ہٹ جانا چاہیے اور ملکی باگ ڈور جوانوں کے حوالے کر دینی چاہیے دراصل نوجوان ووٹروں کو متوجہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نون ملک میں خوشحالی لانے اور اقتصادی بحالی کے بیانیے کے ساتھ ووٹروں کے پاس جا رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کو اس جماعت کی سربراہی میں بننے والی پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ ان ناکامیوں کا مدبرانہ تجزیہ کرنے کی بجائے 'سیاسی قیمت چکا کر ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے‘ والا بیانیہ سامنے لے آتی ہے۔ نون لیگ کے رہنما آج کل مستقبل کے منصوبوں کی بات کرنے کی بجائے سال دوہزار تیرہ سے اٹھارہ تک کے عرصے والی اپنی حکومت کی کامیابیوں کو گنوا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کو اپنے مخالفین کے اس بیانیے کا توڑ کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے جس کے مطابق وہ نواز شریف کو لاڈلا اور مسلم لیگ نون کو اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کار عامر خاکوانی کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ایک ایسا بیانیہ بنا رہی ہے کہ ان کا الیکشن جیت کر اقتدار میں آ نا بالکل یقینی ہے۔ اس لیے مضبوط الیکٹٰبلز اس کی طرف جانا شروع ہو گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف ملکی سیاسی تاریخ میں تبدیلی کے بیانیے کو سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنے میں بہت کامیاب رہی ہے لیکن آج کل اسے سیاسی سپیس نہیں مل رہا اور تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں مواقع یعنی لیول پلینگ فیلڈ کے بیانیے کی بات کر رہی ہے۔ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں بھی ملکی مسائل کے حل کا کوئی ٹھوس منصوبہ پیش کرنے کی بجائے امریکہ اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات اور مذہبی نعروں کو استعمال کرکے اپنا بیانیہ آگے بڑھا رہی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں حالات کے ساتھ ساتھ اپنے بیانیوں کو بھی تبدیل کرتی جا رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کچھ عرصہ پہلے تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پوری طرح آن بورڈ تھی لیکن وہاں سے دال نہ گلنے پر وہ اب ایک مرتبہ پھر سلیکٹڈ کی بجائے الیکٹڈ ہونے کی مخالفت کر رہی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ نون نے بھی ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ سر دست کہیں پس پشت ڈال دیا ہے۔
تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اصل میں اچھے جمہوری معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی ہونا تو یہی چاہیے کہ سیاسی جماعتیں ملک کی بہتری کے لیے قومی پالیسیاں کے بارے میں بتائیں کہ ان کی ہیلتھ پالیسی کیا ہو گی ایجوکیشن پالیسی کیا ہوگی لیکن میڈیا کے گلیمر اور سوشل میڈیا کی دوڑ میں برانڈ، سلوگن اور بیانیے زیادہ بکتے ہیں۔ رسمی طور پر کچھ جماعتیں منشور کا اعلان کر تو دیتی ہیں لیکن وہ بر سر اقتدار آ کر اس پر عمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔'' اور تو اور وہ اپنے پارٹی کے آئین پر بھی عمل نہیں کرتیں جہاں لکھا ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر منصفانہ انتخابات کروائیں اور سیاسی جماعت کے عہدے اور حکومتی عہدے الگ الگ ہوں گے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی جماعتیں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ چھوڑ کر شہرت کے سستے طریقوں اور چور دروازوں سے اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گی تو پھر ہمیں ایک اور 'ہائبرڈ سسٹم‘ کے لیے تیار رہنا چاہیے '' اس طرح ہمارے سیاست دانوں کے پاس صرف مقامی حکومتیں ہی باقی بچیں گی ۔ خارجہ پالیسی، سکیورٹی پالیسی اور مالیاتی پالیسیوں پر تو پہلے ہی وہ اپنی جگہ کسی کو دے چکے ہیں۔سیاسی جماعتوں پر تو ہم تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن اب اداروں کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور یہ کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
تجزیہ نگار فاروق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی نیا بیانیہ سامنے نہیں آیا ان کے لیے یہ حیرت کی بات ہے کہ کسی جماعت نے گڈ گوورننس، شفافیت اور بدعنوانیوں کے خاتمے کو اپنے بیانیوں میں جگہ نہیں دی۔ ان کے نزدیک موجودہ ملکی حالات میں آئین پر عملدرآمد، جمہوریت کی بالادستی، قانون کا نفاذ اور بے لاگ احتساب ہی بہتر بیانیے ہو سکتے ہیں۔ ''یہ کیسی بات ہے کہ سیاست دانوں کے خلاف ریفرنسز بنانے والے نیب افسران ہی نیب کے کیسز سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور پارلییمنٹ سیاست دانوں پر لگے بدعنوانیوں کے داغ دھونے کے لیے قانون سازی کرتی ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر خالد سلطان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنا میڈیا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے کسی موثر بیانیے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں،''اچھا بیانیہ وہ ہوتا ہے جو عوام کے دلوں کے قریب ہو لیکن پاکستان میں زمینی حقائق مختلف ہیں۔ یہاں کوئی اچھا بیانیہ کسی جماعت کو کامیابی دلانے کی ضمانت نہیں بنتا ہے بلکہ کچھ اور عوامل ہوتے ہیں جو کمزور بیانیے والی جماعتوں کو اقتدار میں لا سکتے ہیں یا پھر مضبوط بیانیے والی جماعت کو اقتدار سے باہر رکھ سکتے ہیں۔‘‘