پاکستان میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح
19 دسمبر 2020یہ منظر اور یہ صورتحال یقینا ہم سب کے لیے بہت جانی پہچانی ہے کیوں کہ برصغیر پاک و ہند کے رہنے والے خاندان اس طرح کی صورتحال سے اگر دوچار نہ بھی ہوئے ہوں تو اپنے ارد گرد دیکھنے کا موقع ضرور ملا ہوگا۔ اب اس سے آگے کی داستان ہر کہانی میں مختلف نشیب و فراز سے گزرتی مختلف رنگ اختیار کرتی جاتی ہے یا پھر جلد ہی یہ داستان اپنے اختتام کو پہنچتی ہے اور وہ دلہن جس سے بڑے ارمانوں سے بیاہ کر لایا گیا تھا طلاق کا پروانہ ہاتھ میں لیے واپس اپنے ماں باپ کے گھر جا پہنچتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں طلاق کی شرح میں افسوس ناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ صرف سٹی کورٹ کراچی میں اس سال تقریبا پندرہ ہزار طلاق کے کیسز دائر کیے گئے۔ ماضی کے مقابلے میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح خطرناک حد تک پہنچ کر ایک سماجی مسئلہ بن چکی ہے اور یہ مسئلہ ہمارے خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔
علمائے دین اپنے بیانات میں اکثر مغربی میڈیا اور بالی ووڈ کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں سے بے شمار پاکستانی ڈرامے بھی اس حوالے سے تنقید کی زد میں رہے۔ ان ڈراموں کی کہانیوں اور کرداروں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا، جو معاشرے میں 'بے حیائی اور بے راہ روی‘ کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ یقینا عوام کی رائے تشکیل دینے میں جدید میڈیا کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ کچھ ماہرین کے خیال میں معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت کا رویہ اس کا ذمہ دار ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ اس مسئلہ کی بنیاد دراصل کہیں اور ہے۔ صرف ڈرامے، میڈیا یا عدم برداشت کے رویہ کو ہی اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس بات کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے کہ پچھلے چند سالوں میں ہمارے معاشرے میں ایسی کونسی تبدیلی آئی، جس نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔
کسی بھی معاشرے کا خاندانی نظام ہی اس کی بنیادی اکائی ہوا کرتا ہے۔ خاندانی نظام کی مضبوطی ہی معاشرے کی کامیابی کی ضامن ہے۔ مضبوط خاندانی نظام ہی نسل انسانی کی بقا، بچوں کی نشوونما، پرورش اور درست سمت میں تربیت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ناکام شادی صرف دو افراد کے درمیان علیحدگی کا ہی نام نہیں بلکہ یہ یہ اس گھرانے کی آنے والی نسلوں پر بری طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔
کسی مضبوط عمارت کی تعمیر اس بات پر منحصر ہے کہ اس کی بنیاد کتنی مضبوط رکھی گئی ہے۔ اور یہ مضبوط بنیاد ہی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ آنے والے وقت میں عمارت موسمی اثرات اور طوفانوں کو برداشت کر پائے گی۔ بالکل اسی طرح کسی بھی رشتے کی بنیاد اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ وہ کتنا پائیدار اور دیرپا ثابت ہوگا۔
ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ ہمارے یہاں رشتوں کی بنیاد کس چیز پر رکھی جاتی ہے۔ والدین کیوں اپنے بچوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں؟ یقینا تمام والدین کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ان کے بچے ازدواجی زندگی میں عملی قدم رکھ سکیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے ؟ آپ نے بھی اکثر ماؤں کو کہتے سنا ہو گا کہ میں اپنے لڑکے یا لڑکی کی شادی اتنے اونچے خاندان میں کروں گی کہ دنیا دیکھتی رہ جائےگی۔
بہو اتنی خوبصورت لانی ہے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے۔ شادی کے انتظامات اور دھوم دھام ایسی ہونی چاہیے کہ دنیا دیکھتی رہ جائے۔ لیکن دنیا واہ واہ پھر بھی نہیں کرتی۔ تنقید کرنے والے ہر حال میں تنقید ہی کریں گے۔ شادی ہال میں بیٹھ کر کھانے پر تنقید، آپ کے انتخاب پر تنقید، آپ کے انتظامات پر تنقید کی جائے گی۔ جب آپ کی بنیادی سوچ اور آپ کی ترجیحات صرف دنیا کو دکھانا اور خوش کرنا ہی ہے تو پھر باقی تمام پہلو پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ لڑکے کا انتخاب کرتے ہوئے سب سے بنیادی چیز اس کا کردار ہے، جسے مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ لیکن ہمارے یہاں کردار کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا بلکہ لڑکے کی دولت دیکھی جاتی ہے۔ لڑکی کو اس کی سیرت یا خوبیوں کی بناء پر منتخب کرنے کے بجائے صرف ظاہری خوبصورتی کو ہی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ظاہری خوبصورتی یا دولت ہمیشگی والی چیزیں ہرگز نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
دنیا کے سب سے زیادہ اسقاط حمل والے ممالک میں پاکستان بھی
پاکستانی مسلم خواتین کے لیے طلاق فوری یا صرف مرحلہ وار
آج ہیں تو کل نہیں ہوں گی اور اگر آج نہیں ہیں تو کل ہو بھی سکتی ہیں۔ تمام والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بیٹے یا بیٹی کے جیون ساتھی میں لازمی طور پر وہ 'اخلاقی اقدار‘ موجود ہوں، جن 'اخلاقی اقدار‘ کے ساتھ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش کی ہے۔ رشتے طے کرتے ہوئے جب مطابقت اور ہم آہنگی کو ہی پس پشت ڈال دیا جائے تو نتیجہ پھر طلاق کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر دنیا دکھلاوے کے لیے سمجھوتے والی گھٹن زدہ زندگی کی صورت ہی باقی بچتی ہے۔
میاں بیوی کے ایک دوسرے سے بیزاری کے لطائف سنا سنا کے حظ اٹھایا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ازدواجی زندگی سے متعلق لطائف اتنے عام ہیں۔ خواتین کی محفلوں میں اپنے شوہر حضرات کے بارے میں شکایات کا انبار ایک پسندیدہ ترین گپ شپ کا موضوع ہے۔ ساس نندوں کی شکایات کے تڑکے کے ساتھ شوہر کو قابو کرنے کی حکمت عملی پر بھی غور وغوض کیا جاتا ہے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ سب سے گھمبیر ترین مسئلہ، ساس کے اعلی حکومتی انتظامی اختیارات سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی بھی پوری دلجمعی سے کی جاتی ہے۔ ان محفلوں میں شادی شدہ خواتین کے درمیان ہتھیاروں کے تبادلے کے معاہدے بھی طے کر لیے جاتے ہیں۔ جب کسی رشتے میں باہمی ہم آہنگی محبت اور خلوص نہ ہو تو پھر یہی منظرنامہ تشکیل پاتا ہے۔
شادی ہمارے معاشرے میں ایک پوری سائنس ہے، جس کے ذریعے علاج معالجے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں ایک یہ سوچ بھی کارفرما ہے کہ اگر کسی کا بیٹا یا بیٹی کسی طرح کے ذہنی انتشار کا شکار ہے تو بڑے آرام سے اُنہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ 'ارے اس کی شادی کر دو سب ٹھک ہو جائے گا'۔ کوئی لڑکا اگر غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے تو اس کا علاج بھی شادی میں ڈھونڈا جاتا ہے۔ اور بڑے آرام سے یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ جب سر پہ ذمہ داری پڑے گی تو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ اب اگر اسے ذمہ داری کا احساس شادی کے بیس سال بعد ہو اور اس دوران بیوی بچے رل جائیں یا وہ فورا ہی ذمہ داری سے گھبرا کر رشتہ توڑنے پر تل گیا تو اس کا ذمہ دار کیا میڈیا کہلائے گا؟
طلاق ایک سماجی مسئلہ اس لیے نہیں بنتا جا رہا ہے کہ بے حیائی، مالی تنگی یا عدم برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ پہلو بھی اپنی جگہ کسی حد تک کارفرما ہوں گے لیکن انہیں مسئلہ کی جڑ نہیں کہا جا سکتا۔ دراصل یہ مسئلہ ہمارے معاشرے کا سماجی ڈھانچہ بکھرنے سے وجود میں آ رہا ہے۔ انا پرستی اور بڑھتی ہوئی مادہ پرستی رشتوں کو کمزور اور خراب کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ فی زمانہ رشتے اور تعلقات کی اہمیت کم سے کم اور برقی آلات زیادہ اہمیت کے حامل ہوچکے ہیں۔
ہماری ترجیحات اور تعلقات اپنے فائدے سے جڑے ہیں۔ ہم دکھاوے اور مادہ پرستی کی ایسی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں، جہاں سے نکلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ ناممکن اس لیے کہ شاید ہم اس دلدل کو ہی زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہم سب ہی اس سماجی بگاڑ کے ذمے دار ہیں۔ معاشرے کے اس بگاڑ کی درستی کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہمارے اپنے ہی ہاتھوں میں ہے۔