پاکستان کا تعلیمی نصاب، اقلیتوں کے تحفظ کے لیےاصلاحات ناگزیر
9 نومبر 2011رپورٹ کے مطابق اساتذہ کی ایک بڑی تعداد بھی ان اقلیتوں کو اسلام کا دشمن تصور کرتی ہے۔
امریکہ میں عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کے سربراہ لیو نارڈ لیوکا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی تعلیمات دینے سے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کوحاصل حقوق نہ ملنے کی صورت میں قومی اور علاقائی استحکام بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
پاکستان جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مسلم ملک کی حیثیت سے1947ء میں قائم ہوا۔ آغاز میں ایک اعتدال پسند ریاست کی حیثیت سے یہاں اقلیتوں کو مکمل آزادی اور حقوق حاصل تھے۔ پاکستانی معاشرے میں بنیاد پرستی کے رجحان میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ بھارت کے ساتھ تین جنگیں، افغانستان میں روس کے خلاف لڑنے والے عسکریت پسندوں کی حکومتی حمایت اور اقلیتوں کے خلاف سخت گیر موقف رکھنے والے مذہبی رہنماؤں کے خلاف کمزور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے بھی معاشرے میں بنیاد پرستی کو فروغ حاصل ہوا۔
پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو عسکریت پسندوں کے حمایتی اکثر ہلاک کر دیتے ہیں۔کمیشن نے اس حوالے سے خبردار کیا کہ اگر تعلیمی شعبے سمیت زندگی کے دیگر شعبوں میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی روک تھام نہ کی گئی تو پاکستان کو عالمی طور پر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تعلیمی نصاب میں اسلامائزیشن کا عنصر سابق آمر ضیاء الحق کے دور میں آیا۔ حکومت نے دو ہزار چھ میں تعلیمی نصاب میں اصلاحات کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ پاکستان میں اسلام پسندی اور دائیں بازو کی سیاست نصاب میں کسی بھی تبدیلی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں تاہم حکومت بھی اس معاملے میں سنجیدہ نظرنہیں آتی ہے۔
رپورٹ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں خاص طور پر مسیحیوں اور ہندوؤں کو معاشرے میں منفی انداز سے پیش کیا جاتا ہے۔ اٹھارہ کروڑ آبادی والے ملک میں ہندوؤں کی تعداد ایک فیصد اور مسیحی دو فیصد ہیں جبکہ سکھ اور بدھ مت سے وابسطہ افراد بھی تھوڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ملک میں اقلیتیوں کو دوسرے درجے کے شہری تصور کیا جاتا ہے اور انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔کتب میں بھی ملکی ترقی سمیت زندگی کے دیگر شعبوں میں اقلیتیوں کی جانب سے ادا کیے گئے نمایاں کردارکی نفی کی جاتی ہے اور انہیں نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا ہے۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: عدنان اسحاق