پاکستان کی اقتصادی ترقی میں ماحولیاتی تبدیلیاں ایک بڑا چیلنج
6 دسمبر 2018پولینڈ کے شہر کاٹو وِیسا میں رواں ہفتے کے آغاز سے جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں 190 ممالک اکٹھا ہوئے ہیں۔ تحفظ ماحول کے موضوع پر ہونے والے ان مذاکرات میں پاکستان کا کردار نہ تو اتنا اہم ہے اور نہ ہی پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے مرکزی ممالک میں شامل ہے۔ تاہم دو دہائیوں سے ان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر زدہ ممالک کی فہرست میں پاکستان مسلسل ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں ضرور موجود ہے۔
COP24 اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی ضرر رسا گیسیں خارج کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 135 واں نمبر ہے تاہم متاثرہ ممالک میں پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے۔ ملک امین اسلم کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو تین ہزار آٹھ سو ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اسی وجہ سے سب سے زیادہ اقتصادی نقصانات اٹھانے والے ملکوں میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں، ’وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘
ماہرین کے مطابق پاکستان کو تین اہم ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، درجہ حرارت میں اضافہ، پانی کی کمی اور فضائی آلودگی شامل ہیں۔ کاٹو وِیسا میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کے مؤقف کے بارے میں ملک امین اسلم نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ یہاں عالمی برادری کو بتانا ضروری ہے کہ پاکستان ایسے اقدامات بھی کر رہا ہے جو تحفظ ماحول کے لیے ضروری ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں قومی خزانے سے 120 ملین ڈالر کی لاگت کے ساتھ ’بلین ٹری سونامی‘ منصوبے کے تحت ایک ارب درخت لگائے گئے۔ اب، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آئندہ پانچ سالوں کے دوران ملک بھر میں مزید دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا ہے، جس کے لیے قریب ایک ارب امریکی ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
شمالی پاکستان سیلابوں کی زد میں، تیس افراد ہلاک
’پاکستان میں سیلاب کا صرف نو فیصد پانی محفوظ کیا جاتا ہے‘
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے خبردار کیا ہے کہ سن 2025 تک پاکستان میں پانی کی قلت ایک بحران کی شکل اختیار کرلے گی۔ اس کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ’ریچارج پاکستان‘ کے نام سے ایک پراجیکٹ متعارف کروائے گی۔ ’ریچارج پاکستان‘ منصوبے کے ذریعے سیلاب کے پانی کو ملک کی مختلف جھیلوں میں محفوظ کیا جائے گا۔ ان کے مطابق پاکستان میں پانی کی قلت سے زیادہ ’واٹر مینجمنٹ‘ کا مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان میں صرف نو فیصد سیلاب کا پانی محفوظ کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے وزیراعظم عمران خان ملک میں مزید ڈیم بنانے کی حمایت کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک امین اسلم کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیگر متاثرہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے نئے نئے عنصر نمودار ہو رہے ہیں جیسے کہ مون سون بارشوں کے سلسلے میں تبدیلی۔ لہٰذا وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پر عزم ہے۔
اقتصادی ترقی کے فروغ کے لیے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنا ضروری ہے
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے حال ہی میں اپنے ایک سو روز مکمل کیے ہیں لیکن نئی حکومت ملکی معاشی معاملات پر ابھی قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنما ملک امین اسلم کا کہنا تھا، ملک سنجیدہ اقتصادی چیلنجز سے دوچار ہے جس کے حل کے سلسلے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ لہٰذا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے حکومت کو مجموعی قومی پیداوار ( جی ڈی پی) کا چھ سے آٹھ فیصد ان تباہ کاریوں سے نمٹنے میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔
قحط، گرمی کی لہر اور آلودہ دھند
موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومتوں کو اختیارات دینے کے سوال کے جواب میں مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت ان تمام صوبوں کی مشاورت اور رضامندی کے بعد ہی ’ریچارج پاکستان‘ اور ’کلین گرین پاکستان‘ جیسے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان کے بقول وزارت ماحولیاتی تبدیلی ان منصوبوں کی فنڈنگ کا انتظام کر رہی ہے تاکہ صوبائی حکومتیں نچلی سطح پر لوکل گورنمنٹ سے یہ تمام کام موثر طریقے سے کروا سکیں۔
COP24 جیسے فورمز پر مسائل کو اجاگر کرنا ضروری ہے
ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ملک امین اسلم نے کہا کہ عالمی برادری کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پاکستان اپنے تعین ایسے اقدامات اٹھا رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی حدت میں کمی ہو سکے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے ہر ممکن تعاون کیا جائے، خصوصاﹰ ایسی ٹیکنالوجی فراہم کی جائے، جس کے ذریعے پاکستان صاف اور ماحول دوست توانائی پیدا کر سکے۔