پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں متعدی امراض کا خطرہ
14 اگست 2010یہ سیلاب تقریبا دو ہفتے قبل مون سون کی طوفانی بارشوں کا باعث ہے، جس سے وسطی پنجاب، اندرون سندھ اور خیبر پختنواہ کے متعدد علاقے زیر آب آ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق کم ازکم 1600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متاثرین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اسے پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب قرار دیا جا چکا ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیماریاں پھیلنے کے خبریں سامنے آ رہے ہیں، جس نے صورت حال کو اور بھی تشویشناک بنا دیا ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز نے وادئ سوات کے علاقے مینگورہ میں ایک ہسپتال کے عہدے دار کے حوالے سے مُتعدی مرض ہیضے کا ایک کیس سامنے آنے کی تصدیق کی ہے۔ تاہم اس عہدے دار نے یہ معلومات اپنا نام ظاہر نہ کرنے پر دی ہیں۔ دوسری جانب اسی علاقے میں کام کرنے والے ایک جرمن امدادی ادارے کا کہنا ہے کہ وہاں اس مرض کے چھ مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ مرض پھیلا تو پاکستان کے لئے ایک اور تباہی کا باعث بنے گا۔ اقوام متحدہ پہلے ہی آلودہ پانی سے جنم لینے والی بیماریوں کے حوالے سے تشویش ظاہر کر چکی ہے۔ اس تناطر میں دست کی بیماری کے مشتبہ کیسز کی تعداد 36 ہزار بتائی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سیلاب سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ متاثر ہے۔
اقوام متحدہ کے آپریشن برائے انسانی ہمدردی ادارے کے ترجمان Maurizio Giuliano نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’اس حوالے سے تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی لئے ہم کسی بھی بیماری کو بڑے پیمانے سے پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
خبررساں ادارے AP کا کہنا ہے کہ سیلاب زدگان کو بخار، معدے کے مسائل اور جِلدی بیماریوں کا سامنا ہے۔ امدادی کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کے نتیجے میں ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کھڑے پانیوں میں ملیریا اور ڈینگی بخار پھیلانے والے مچھرکی افزائش سے ان بیماریوں کا خطرہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
دوسری جانب مزید سیلابی ریلوں کا خطرہ ابھی تک نہیں ٹلا۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی صوبے سندھ کے ڈیموں میں پانی کی سطح گنجائش سے زیادہ ہو سکتی ہے، جو مزید سیلابی ریلوں کا باعث بن سکتی ہے۔ سیلاب کی پیشین گوئی سے متعلق پاکستانی ایجنسی کے ایک عہدے دار عرفان وِرک کا بھی کہنا ہے کہ آئندہ ہفتے مزید بارشوں کے باعث ڈیموں میں پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا ہوا تو سندھ اور پنجاب میں دریاؤں کے ارد گرد کی آبادیوں کو خطرہ ہو گا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عابد حسین