1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈھاکا: مبارک حسین کے لیے بھی سزائے موت

عاطف بلوچ24 نومبر 2014

بنگلہ دیش میں حکمران جماعت کے سابق رہنما مبارک حسین کو 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران قتل عام کا مرتکب ہونے پر سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ یوں اُس دور میں ظلم و جبر کا قصور وار پانے پر کل چودہ افراد کو سزا سنائی جا چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ds3t
جماعت اسلامی کے حامی ان سزاؤں کے خلاف مظاہرے کرتے رہتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/Monirul Alam

عوامی لیگ پارٹی کے رہنما مبارک حسین کو 2012ء میں پارٹی سے برطرف کرتے ہوئے ان کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ 1971ء میں پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران انہوں نے ایک ایسی ملیشیا کی رہنمائی کی تھی، جس نے اُس دور میں نو مہینوں تک جاری رہنے والے اِس تنازعے میں سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا تھا۔ حکام نے بتایا ہے کہ پیر کے دن ان پر یہ تمام الزامات ثابت ہو گئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پراسیکیوٹر شاہد الرحمان کے حوالے سے بتایا ہے، ’’33 افراد کے قتل کے جرم پر ان (مبارک حسین) کو سزائے موت سنائی گئی ہے جبکہ ایک اور شخص کے اغوا اور ہلاکت کے جرم پر عمر قید سنائی گئی ہے۔‘‘ چونسٹھ سالہ مبارک حسین ماضی میں موجودہ حکمران پارٹٰی سے تعلق رکھنے والے ایسے پہلے سیاستدان ہیں، جنہیں اس تناطر میں جنگی جرائم کے اس متنازعہ ٹریبیونل نے سزائے موت سنائی ہے۔ اس فیصلے سے قبل اس عدالت کی طرف سے زیادہ تر بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی کے ممبران پر ہی توجہ مرکوز کی جاتی رہی تھی۔

Bangladesch Polizisten vor dem Kriegsverbrechertribunal 13.11.2014 Dhaka
پیر کے دن عدالت کے باہر سکیورٹی ہائی الرٹ تھیتصویر: AFP/Getty Images/M. Uz Zaman

یہ امر اہم ہے کہ مبارک حسین بھی پہلے جماعت اسلامی ہی سے وابستہ تھے۔ آزادی کے بعد کچھ عرصے کے لیے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس دوران مبارک حسین نے اپنی سیاسی وفاداری بدلتے ہوئے عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ سولہ برس تک وہ عوامی لیگ سے وابستہ رہے، جس کے بعد ’حقائق سامنے آنے پر‘ ان پر فرد جرم عائد کر دی گئی تھی۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کے خلاف تھی اور کہا جاتا ہے کہ اسی لیے یہ جماعت مبینہ طور پر پاکستانی فوج کا ساتھ دیتے ہوئے ایسے بنگالی افراد کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہی، جو آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ ڈھاکا سے موصولہ اطلاعات کے مطابق جب عدالت نے پیر کے دن اپنا فیصلہ سنایا تو مبارک حسین کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس دوران سخت سکیورٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد کے دوران مبارک حسین ایک بدنام پاکستان نواز ملیشیا کے کمانڈر تھے، جو آکھوڑہ نامی مشرقی سرحدی علاقے میں فعال تھی۔ شاہد الرحمان نے اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے مزید کہا کہ مبارک حسین کی سرپرستی میں یہ ملیشیا قتل عام، اغواء اور پرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہی تھی۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ایک بدترین واقعے میں مبارک حسین اور اس کے ساتھیوں نے 132 افراد کو اغوا کیا، جن میں سے 33 کو قتل کر دیا گیا تھا۔‘‘

بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتیں ڈھاکا حکومت کی طرف سے قائم کردہ جنگی جرائم کے اس ٹریبیونل کی شفافیت کے بارے میں شکوک رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمران عوامی لیگ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ انسانی حقوق کے متعدد ادارے بھی اس ٹریبیونل کی کارروائی سے متعلق بہت سے سوالات اٹھا چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید