1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کب ٹوٹے گی جنوبی ایشیا کی دیوار برلن؟

21 جنوری 2022

 سن 2005 میں سکول کی ایک طالبہ کی حیثیت سے جب میں نے لائن آف کنٹرول کے آر پار پہلی بار بس کو گ‍‍‍زرتے دیکھا، تو میرے احساسات وہی تھے، جیسا سن 1989 میں دیوار برلن کے منہدم ہونے پر بالخصوص مشرقی جرمن بچوں کے ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/45uA1
DW urdu Blogerin | Farhana Latif
تصویر: Privat

سرد جنگ کی علامت تصور کی جانے والی دیوار برلن کے گرنے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں تین اکتوبر 1990ء کو دونوں جرمن ریاستوں کا انضمام عمل میں آ گیا تھا۔ نفرت کا خاتمہ ہوا، امن کی جیت ہوئی، بچھڑے دوست اور رشتہ دار پھر یکجا ہو گئے اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں۔

سوچیں کہ میرے دل میں کیا امنگیں ہوں گی، اس وقت۔ اس کے تین سال بعد سن 2008 میں جب اسی روٹ پر کشمیر کے دونوں خطوں کے درمیان تجارتی ٹرک چلنے لگے، تو میرے والد کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔

وہ اب اس زعم میں تھے، کہ قصبہ سوپور کے نواح  میں ان کے سیبوں کے باغ کے پھل اب مظفر آباد کے علاوہ پاکستانی اور پھر بین الاقوامی منڈیوں میں بھی پہنچ سکیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ سن 1947 کے بعد الگ تھلگ ہوا شمالی کشمیر ایک بار پھر عالمی رہگ‍زر بن جائے گا۔کتنے سہانے خواب تھے، ابا کے؟

جہاں جرمن بچوں اور ان کے والدین کے خواب حقیقت میں بدل گئے، کشمیر میں یہ بس سروس بس ایک سراب ہی ثابت ہوئی۔ ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کے بعد پھر اسی جاڑے نے ایسی برف جما دی، جو پگھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

لائن آف کنٹرول بند ہے۔ دونوں طرف کے عوام آس لگائے انتظار میں ہیں کہ یہ لکیر، جو خاندانوں کو جدا کرتی ہے، کب ان کو دوبارہ راہداری دے گی۔ بھارت اور پاکستان نے اسے راہداری کے کھولنے کو اعتماد سازی کا ایک اہم قدم قرار دیا تھا، جس سے کشمیر کے باقی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔  

مگر یہ خونی لکیر ایک بار پھر فائرنگ، گولوں اور شیلنگ کی زد میں آ گئی ہے۔ گو کہ فروری سن 2021 میں بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان سیز فائر کی بدولت کچھ راحت نصبیب ہوئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس لائن آف کنٹرول کے پاس رہنے والے مکینوں کو گھر تعمیر کرنا ہوتا ہے، تو ان کو کچھ پیسے مورچوں کی تعمیر کے لیے بھی مختص کرنا ہوتے ہیں۔ 

 کچھ علم نہیں کب اور کس وقت دونوں ملکوں کی افواج کا موڈ بدل جائے، یا  بس موڈ تبدیل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر فائرنگ یا شلنگ کر دی جائے۔ اطراف سے داغے جانے والے یہ بم مقامی لوگوں کے کھیتوں، مکانوں اور ان کے مال مویشیوں پر ہی گرتے ہیں۔ کسی جھڑپ کے بعد کئی دن تک تو ہر آہٹ پر فائرنگ کا ہی گمان گزرتا ہے۔

میرے منقسم خاندان کی طرح لاتعداد دیگر خاندانوں کے لیے بھی سری نگر سے مظفر آباد بس سروس ایک امید تھی۔ لگتا تھا کہ اس بس سے ہم ایک دوسرے سے دوبارہ جڑ سکتے ہیں۔ اس لائن کی دوسری طرف میری  پھوپھیاں، چچا اور کزن بھی اس بس کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے، کیونکہ یہ ہمارے علاقے کو چھو کر آتی تھی۔

کشمیر کی خار دار تاروں سے اٹی یہ لائن آف کنٹرول، دیوار برلن سے بھی خاصی مضبوط اور ڈھیٹ معلوم ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس کے نرم ہونے یا ختم ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔

جب مجھے  7 اپریل 2005 کا دن یاد آتا ہے، تو یہ بھی یاد آتا ہے کہ منقسم خاندان کتنے پر امید تھے۔ وہ  نصف صدی سے اپنے پیاروں کو دیکھنے کی آس لیے ہوئے تھے۔ اس دوران ان خاندانوں کے کتنے لوگ دل میں حسرت لیے وفات پا گئے۔

امن کی علامت کے لیے کمان پوسٹ کے پل کو سفید رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر اجازت نامہ حاصل کرنے کے عمل میں دیر ہو گئی تو کیا، کسی نہ کسی دن وہ دوسری طرف سفر تو کر ہی پائیں گے۔

مگر دونوں ممالک کے درمیان جب بھی کوئی بحران پیدا ہوتا، تو اس سروس کو سب سے پہلے نشانہ بنا کر معطل کر دیا جاتا، یہ امر اس بات کی علامت تھی کہ بس سروس کے آغاز کو چاہے کتنا ہی بھلا اقدام قرار کیوں نہ دیا گیا ہو، لیکلن حقیقت یہ تھی کہ یہ قدم بھی سیاسی تعلقات کا یرغمال تھا۔

 جب بھی دونوں ممالک کے مابین کوئی تناؤ پیدا ہوتا، تو دونوں اطراف کے مسافر اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے کے بارے میں بے چین ہو جاتے، جس کی وجہ سے اس بس سروس کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔

پانچ اگست سن دو ہزار انیس سے بس سروس غیر معینہ مدت کے لیے معطل ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا خمیازہ منقسم خطے اور اس کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

معلوم نہیں کہ جنوبی ایشیاء کی یہ دیوار برلن کبھی زمین بوس ہو گی یا نہیں؟ مگر صرف ایک بس سروس سے جس طرح دونوں طرف کے منقسم خاندانوں کے چہروں پر مسکراہٹ آ گئی تھی، وہ اب ناپید ہو چکی ہے۔

ایک منزل طے کرنے کے بعد دونوں ممالک کئی مزلیں واپس لوٹ چکے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور بھارت میں نفرت جس مقام تک پہنچ گئی ہے، اس نے اطراف کے منقسم خاندانوں کی امیدیں بجھا دی ہیں، جس میں میرا خاندان بھی شامل ہے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید