کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی تک مذاکرات ناممکن، عمران خان
12 مئی 2021جموں کشمیر کا خطہ ان دونوں حریف ہمسایہ ممالک کے مابین متنازعہ ہے اور دونوں نے ہی نا صرف اس کے ایک ایک حصے کو اپنے انتظام میں لے رکھا ہے بلکہ ساتھ ہی نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں ہی پورے کے پورے جموں کشمیر پر اپنا اپنا حق بھی جتاتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کا حل پرامن مکالمت سے، پاکستانی سعودی اعلامیہ
وزیر اعظم عمران خان نے منگل کے روز لائیو نشر کی جانے والے ایک 'ٹیلی چیٹ‘ میں ٹیلی فون پر پاکستانی شہریوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب تک نئی دہلی کی طرف سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے متنازعہ خطے کی نیم خود مختار آئینی حیثیت بحال نہیں کی جاتی، پاکستان بھارت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔
قیاس آرائیوں کی نفی
عمران خان کے اس واضح موقف سے بظاہر ان قیاس آرائیوں کی نفی ہو جاتی ہے کہ پاکستان اور بھارت شاید آپس میں غیر اعلانیہ مذاکراتی رابطوں میں ہیں۔ ملکی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کے دعووں کو تقویت اس وقت ملی تھی، جب فروری میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں نے ہی آپس میں کشمیر کے منقسم خطے میں کنٹرول لائن کے آر پار سے فائر بندی کے اس معاہدے پر عمل درآمد کے عزم کا اعادہ کیا ہے، جو 2003ء میں طے پایا تھا۔
کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے حکام کے خفیہ مذاکرات
کشمیر میں کنٹرول لائن پر فائر بندی کے احترام سے متعلق دوطرفہ عزم کے اعادے کے بعد سے اب تک وہاں کوئی جھڑپیں نہیں ہوئیں۔
کشمیری عوام کو یقین دہانی
کنٹرول لائن پر فائر بندی سے متعلق اس اعلان کے بعد سے پاکستانی اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ وہ یہ وضاحت کرے کہ آیا اسلام آباد نئی دہلی کے ساتھ کشمیر کے بارے میں کوئی در پردہ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
کشمیر میں کنٹرول لائن پر موت کی گھن گرج محتاط خاموشی میں ڈوب گئی
اس پس منظر میں پاکستانی وزیر اعظم نے 'ٹیلی چیٹ‘ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ کشمیری عوام کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ جب تک نئی دہلی حکومت اپنا 2019ء میں کیا گیا فیصلہ واپس نہیں لیتی اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار آئینی حیثیت بحال نہیں کی جاتی، تب تک پاکستان بھارت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔
ماضی کو دفن کرکے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات ضروری، پاکستانی آرمی چیف
مودی حکومت کا 2019ء کا فیصلہ
2019ء کے موسم گرما میں بھارت میں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ملکی آئین کے تحت جموں کشمیر کی تب تک خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اس خطے کو براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا اور اسے بھارت کا ایک یونین علاقہ قرار دے کر ساتھ ہی چند دیگر بڑی انتظامی تبدیلیاں بھی کر دی تھیں۔
یکجہتی دکھانی ہے تو کشمیر سے فوجیں نکالیں، کشمیری تنظیمیں
اس اقدام کے خلاف بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اور پاکستان میں بھی احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے اور نئی دہلی اور اسلام آباد کے پہلے ہی سے کشیدہ تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہو گئے تھے۔
عمران خان کے بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی حیثیت اور بھارت سے ممکنہ مذاکرات کے بارے میں اس تازہ بیان پر نئی دہلی کی طرف سے اب تک کوئی تبصرہ کیا گیا ہے اور نا ہی کوئی ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔
م م / ک م (اے پی)