کولاراڈو سانحہ: ایک برس بعد بھی ’گن کنٹرول‘ محض بحث
19 جولائی 2013ایک برس قبل کولاراڈو ریاست کے مقام آرورا کے سنیما گھر میں رات ساڑھے بارہ بجے جب ایک نقاب پوش شخص داخل ہوا اور اس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کی تو ’’دا ڈارک نائٹ رائزز‘‘ کے ناظرین کچھ دیر تک یہ سمجھتے رہے کہ یہ فلم کی تشہیر کے لیے ایک ’’اسٹنٹ‘‘ ہے۔ تاہم جب سنیما ہال دھوئیں اور آنسو گیس سے بھر گیا تو وہ سمجھ گئے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ مذاق نہیں۔ آٹومیٹک شاٹ گن اور ایک نیم آٹو میٹک رائفل لیے یہ شخص اس وقت تک فائرنگ کرتا رہا جب تک ایک بندوق جام نہیں ہو گئی اور دیگر میں گولیاں ختم نہیں ہو گئیں۔
پونے ایک بجے پولیس نے نیورو سائنس کے ایک طالب علم جیمز ہولمز کو آرورا شہر کے سنیما گھر کے باہر ایک کار پارکنگ ایریا سے گرفتار کیا تھا۔
خبر رساں ادارہ ڈی پی اے اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ گرشتہ برس بیس جولائی کو پیش آنے والے اس واقعے میں دس افراد اسی وقت ہلاک ہوئے جب کہ دو نے ہسپتال جا کر دم توڑ دیا۔ بیاسی افراد کو گولیاں لگیں اور وہ زخمی ہوئے۔
سخت قوانین کی ضرورت
ڈی پی اے مزید لکھتا ہے کہ اس واقعے کے بعد میڈیا کی توجہ امریکا میں ’’گن کنٹرول‘‘ پر مرکوز ہو گئی۔ بیشتر امریکیوں کی رائے میں اس نوع کے واقعات امریکا میں اسلحہ رکھنے سے متعلق قوانین کے نرم ہونے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ محسوس ہو رہا تھا کہ امریکی حکومت ضرور اس حوالے سے قوانین میں اصلاحات کرے گی۔ تاہم بارہ ماہ بیت گئے یہ اصلاحات نہ ہو سکیں۔
اس دوران کولاراڈو کے سانحے سے زیادہ بھیانک ایک اور واقعہ ہو کر گزر گیا۔ یہ واقعہ ریاست کنیٹیکٹ کے ایک اسکول میں پیش آیا۔ ایک اور مسلح نوجوان اسکول میں داخل ہوا اور اس نے فائرنگ کر کے بیس طالب علموں اور چھ اساتذہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
امریکی عوام کا اسلحے کے ساتھ رومانس کچھ اس طرح جاری رہا جیسے کہ یہ واقعات ہالی وڈ کی کسی ایکشن فلم کے سین ہوں۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ اور عزیزوں کے لیے اس ایکشن فلم میں کوئی ایسا ہیرو نہیں تھا جو ان کے جگر کے ٹکڑوں کو بچاتا اور فلم ایک پر مسرت اختتام تک پہنچتی۔
مکمل چھان بین
ان واقعات کے بعد اتنا ضرور ہوا ہے کہ امریکا میں رائے عامہ اسلحہ رکھنے کے قوانین کو سخت کرنے کے حق میں چلی گئی اور اس حوالے سے امریکی کانگریس پر دباؤ بڑھ گیا۔ رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ پچاسی فیصد امریکی چاہتے ہیں کہ اسلحہ بیچے جانے سے قبل اسلحہ خریدنے والوں کے بارے میں بھرپور چھان بین کی جائے۔ مگر جب یہ معاملہ اپریل میں سینیٹ کے سامنے لایا گیا تو ریپبلکن پارٹی نے اسے ’’بلاک‘‘ کر دیا۔
دیکھنا یہ ہے کہ امریکی حکمران کب اس حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔